نمائندہ امت:
بنوں فائرنگ واقعے میں خیبر پختونخواہ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور لاتعلقی کھل کر عیاں ہوچکی ہے۔ افسوس ناک واقعے کے بعد عوامی حلقوں میں وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ واضح رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں اور اسے یقینی بنانے کی ذمے داری صوبائی حکومت ہی کا فرض ہے۔ لیکن گنڈا پور حکومت نے جان بوجھ کر احتجاجی مظاہرے سے لاتعلقی اختیار کی، جس کا مقصد فساد پھیلا کر مخصوص سیاسی مقاصد حاصل کرنا تھا۔
ادھر ہفتے کے روز بھی بنوں میں احتجاج جاری رہا۔ پولیس لائن کے سامنے مظاہرے کے دوران منتظمین نے فائرنگ کے خلاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی انکوائری کی ہدایات کو مسترد کر کے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی وزیراعلیٰ کی ناکامی ہے کہ ان کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے جنوبی اضلاع میں طالبانائزیشن فروغ پا رہی ہے۔
واقعے سے متعلق مقامی رہائشیوں کے مطابق زیادہ رش ہونے کے باعث منتظمین نے اسپورٹس کمپلیکس کی طرف مارچ کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس دوران کچھ شرپسندوں نے ریاست مخالف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور شرکا کو بنوں چھائونی پر ہلہ بولنے کے لیے اُکسایا۔
اس موقع پر مظاہرے کے منتظمین قطعی بے بس نظر آرہے تھے۔ ان کی یہ بدانتظامی بھی ناخوش گوار واقعے کے اسباب میں نمایاں رہی۔ سیکیورٹی فورسز کے ذرائع کے مطابق چھائونی سے نہ تو فائرنگ کی ہے اور نہ ہی مظاہرین کینٹ میں گھسنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ فائرنگ کے وقت مظاہرین جمعہ خان روڈ اور اسپورٹس کمپلیکس کے درمیان موجود تھے۔
جمعہ کے روز مظاہرے میں شریک متعدد افراد کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کے لوگوں نے اس مظاہرے کو فوجی آپریشن کے خلاف تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے رکن پختونیار نے کی کوشش تھی کہ احتجاج کا رخ وفاقی حکومت کے خلاف موڑا جائے۔ اولسی پاتون (عوامی تحریک) نے جو اس مظاہرے کے منتظمین تھے، بد امنی اور کاروبار نہ ہونے کے خلاف اس مظاہرے کا انعقاد کیا تھا اور مبینہ طور پر فوجی آپریشن کے خلاف لوگوں کو احتجاج کی کال دی تھی۔ تاہم کئی تنظیموں اور شرپسندوں کی شمولیت سے یہ مظاہرہ پُرتشدد ہوگیا۔
بعد میں مقامی انتظامیہ اور اولسی پاتون کے درمیان مذاکرات کے دوران مظاہرین منتشر ہوگئے اور انہیں ہفتے کے روز پر امن احتجاج کی اجازت دی گئی۔ ہفتے کے روز مظاہرین پولیس لائن کے سامنے جمع ہوگئے اور مطالبہ کیا کہ فائرنگ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور جاں بحق افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔
ذرائع کے مطابق جمعہ کو مارچ میں بنوں اور گرد و نواح سے لوگ قافلوں کی صورت میں شامل ہوئے۔ سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان، صوبائی وزیر ملک پختونیار خان، ایم پی اے ملک عدنان وزیر، ایم پی اے زاہد اللہ خان، بنوں بچائو تحریک کے سربراہ پیر قیصر شاہ، سابق صوبائی وزیر ملک شاہ محمد وزیر، ملک مویز خان سمیت درجنوں مقررین نے اس موقع پر خطاب کیا۔ مارچ کے باعث شہر بھر کے تمام کاروباری مراکز بند اور کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں۔
احتجاج کے دوران پریٹی گیٹ، لکی گیٹ اور ریگل سینما روڈ مکمل طور پر بند ہونے کی وجہ سے جگہ کم پڑ گئی جس پر احتجاج کو اسپورٹس کمپلیکس بنوں منتقل کیا گیا۔ مظاہرین قافلے کی شکل میں روانہ ہوئے تو جمعہ خان روڈ پر فائرنگ ہو گئی۔ اس حوالے سے ترجمان ایم ٹی آئی محمد نعمان کے مطابق ایک نوجوان کی لاش جبکہ 23 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔ جبکہ زخمیوں میں زیادہ تر کو بھگدڑ کی وجہ سے چوٹ لگی ہے۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا بار کونسل نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے صوبے بھر میں عدالتی بائیکاٹ کیا۔ بار کونسل کے وائس چیئرمین صادق علی مومند اور چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی سید تیمور علی شاہ نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی جوڈیشل انکوائری کر کے تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت، صوبے کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات افہام و تفہیم سے حل کریں تاکہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کا جانی و مالی نقصان نہ ہو۔
اس ضمن میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا دعویٰ ہے کہ ہے کہ وزیر اعلیٰ، بنوں انتظامیہ اور ذمہ داران کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور صورتحال قابو میں ہے۔ افسوس ناک واقعہ کے فوری بعد وزیر اعلیٰ کے حکم پر ضلعی انتظامیہ، سیاسی اور سماجی عمائدین پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا گیا تھا۔ جرگے کی تشکیل کے بعد صورتحال قابو میں آ گئی ہے۔