سیلانی کا کالم: ریل کوپ ،خسارے زدہ ریلوے کا کماؤپوت

کئی ایکڑوں پر محیط اس احاطے کو بلند و بالا چار دیواری نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا، جس کے ایک گوشے پر کسی بھوت بنگلے کا سا پھاٹک تھا سیلانی آگے بڑھا تو پھاٹک کے ساتھ گارڈ روم یا چیک پوسٹ پرتین چار افراد خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیئے سیلانی کی آمد پر ان میں سے ایک اٹھ کرآگیا اس کی استفہامیہ نظریں سیلانی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں سیلانی نے آمد کی غرض و غائت بتائی جس پر اس نے شناختی کارڈ طلب کیا سیلانی نے معذرت چاہی کہ وہ شناختی کارڈ جیب میں رکھ کر نہیں گھومتا البتہ اس نے ریل کوپ کی منیجر مارکیٹنگ مہر صاحبہ سے بات کروا دی ، مہر صاحبہ کی جانب سے تصدیق کے بعد گارڈ نے سیلانی کو جانے کی اجازت دی اور گارڈ روم میں منقطع سلسلہ کلام جوڑنے کے لئے جلدی سے پلٹ گیا۔

سیلانی دائیں بائیں دیکھتا ہوا ناک کی سیدھ میں سیدھا چلتا چلا گیا یہ کوئی ڈرائی پورٹ لگ رہا تھا اس کے دائیں جانب ایک دو بڑی بڑی پرانی سرکاری عمارتیں تھیں اور سامنے بھی ایسی ہی اک پرانی سی عمارت تھی جس کا دروازہ کھول کر وہ پاکستان ریلویز کی کنسٹرکشن کمپنی "ریل کوپ” کے دفتر میں داخل ہوگیا اندر آتے ہی اسے حیرت کا جھٹکا لگا، وہ واپس پلٹنے کو تھا سامنے صاف ستھرا استقبالیہ ،دائیں جانب شیشے کے دروازے کے پیچھے بڑے سے ہال میں سلیقے سے بنے چھوٹے چھوٹے ورک اسٹیشنوں میں بہت سے افراد کام میں مصروف تھے نہ سترہ فٹ کی چھت سے اوندھے لٹکے، قیام پاکستا ن کی یاد دلاتے پنکھے ، پیلے بلبوں کی روشنی نہ ریلوے کے دفتروں کا دہائیوں پرانا فرنیچر، یہاں تو ماحول کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا لگ رہا تھا اس نے استقبالئے سے پوچھ ہی لیا کہ ریل کوپ کا دفتر کہاں ہے؟

جواب ملا”سر !ریل کوپ کا آفس تو یہی ہے“

سیلانی نے سوچا کہ ہو سکتا ہے حکومت کی کفائت شعاری مہم نے ایک عمارت میں تین چار محکموں کو گھسا دیا ہو یہیں کہیں کسی گوشے میں ریل کوپ والے بھی بیٹھے ہوں گے، سیلانی نے اپنا نام بتایا اور کہا "مجھے میڈم مہر سے ملنا ہے ؟“

استقبالئے سے خاتون نے اٹھ کر سیلانی کی رہنمائی کی اور ایک چھوٹے سے صاف ستھرے دفتر میں لے آئیں ، تھوڑی دیر بعد مہر صاحبہ مسکراتے ہوئے آ موجود ہوئیں ، رسمی سی گفتگو اور پیشہ وارآنہ خیرمقدمی مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد سیلانی نے پوچھ ہی لیا "ریل کوپ کا دفتر بھی یہیں ہے ؟ “
”کیا مطلب ؟ "مہر صاحبہ نے الجھے ہوئے لہجے میں استفسار کیا

”مم ،مم، میرا مطلب یہ سامنے جو لوگ کام کررہے ہیں ان میں ریل کوپ کے ملازم بھی ہیں ؟“

”سر! یہ ریل کوپ کا ہی دفتر ہے اور یہ سب ملازم ریل کوپ کے ہی ہیں” مہر صاحبہ کے جواب پر سیلانی نے ہنکارہ بھرکر اپنی حیرت دبا لی تھوڑی دیر میں چائے بھی آگئی سیلانی نے چسکیاں لیتے ہوئے مہر صاحبہ کو ریل کوپ کے حوالے سے کریدنے لگا اور اسے حیرت پر حیرت ہونے لگی وہ تو جو ذہن لے کر آیا تھا یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ کچھ دیر بعد مہر صاحبہ اسے ریل کوپ کے سی ای او کے پاس لے آئیں ، ایک بڑے سے شاندار دفتر میں دراز قامت کلین شیو سید نجم سعید نے مسکراتے ہوئے سیلانی کااستقبال کیا

"تشریف رکھیئے” سیلانی شکریہ ادا کرکے بیٹھ گیا اور اپنے ذہنوں میں سوالات ترتیب دینے لگا ، پہلا سول ڈاؤن سائزنگ کا ہی تھا ریل کوپ سے کئی ملازمین کو فارغ کیا گیا تھا ان کے چولہے بجھائے گئے تھے؟ اک اہم سوال یہ بھی تھا کہ ریل کوپ ان بڑے بڑے منصوبوں میں ہاتھ مار رہی ہے جسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے درکار اہلیت پر بہت سے لوگ سوال بھی اٹھاتے ہیں۔ان ہی سوالات کے تعاقب میں سیلانی اسلام آباد کے ایک گوشے میں سید نجم سعید صاحب کے سامنے موجود تھا۔

رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا تو پتہ چلا کہ کنسٹریکشن منیجمنٹ اینڈپلاننگ میں پیشہ وارآنہ دسترس رکھنے والے سید صاحب تو اندر سے فنکار ہیں اوردہائیوں پہلے ٹیلی وژن پر بھی آتے رہے ہیں ، تعارفی گفتگو کے اختتام پر سیلانی نے جھٹ سے سوال جڑ دیا ” فنکار تو بڑا حساس ہوتا ہے آپ فنکار بھی ہیں اور کنسٹریکشن منیجمنٹ یعنی تعمیراتی منیجمنٹ کے ایکسپرٹ بھی، پھر آپ کے ہوتے ہوئے یہ ریل کوپ سے ملازمین کو نکال باہر کرنے کی تخریب کیسے ہوگئی؟“

سیلانی کے سوال پر نجم صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ” کچھ مشکل اور سخت فیصلے مجبوری میں کرنے پڑتے ہیں ، آپ جہاز کے کپتان ہوں، جہاز ڈوبنے لگے تو ایکسٹرا سامان کا بوجھ اس کے لئے بڑا خطرہ ہوتا ہے میں جب تین چار سال پہلے اس ادارے میں آیا تو یہ بری طرح خسارے کا شکار تھا ، تنخواہوں اور اخراجات کے لئے ریلوے سے درخواستیں کیا کرتے تھے، ہمارے پاس    موجود افراد میں سے بڑی تعداد ان کی تھی جو ہمارے کسی کام کے نہ تھے لیکن کسی کے بھانجے بھتیجے یا سفارشی تھے وہ سب کنٹریکٹ پر تھے اور سچ میں ادارے پر بوجھ تھے مجبوری میں ہم نے ان کے کنٹریکٹ میں توسیع نہیں کی کہ ہماری مالی حالت خراب تھی ہمارا سارا انحصار ریلوے پر تھا وہ پیسے بھیجتے تو ہم ملازمین کو تنخواہیں دیتے اور اپنے پروجیکٹس پر لگاتے تھے ۔ آپ حیران ہوں گے اس ادارے کو بنے چالیس سال ہوچکے ہیں اور اس نے چار سال پہلے تک کبھی چالیس کروڑ سے اوپر کا کوئی پروجیکٹ ہی نہیں لیا تھا۔ وسائل کا حال یہ تھا کہ اس پرانی بوسیدہ عمارت میں آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے نام پر ایک چار ایم بی کا کنکشن تھا جس سے جڑے ایک کمپیوٹر پر ایک آئی ٹی ایکسپرٹ بس ای میلز نکال کردینے کی ڈیوٹی کر رہا تھا وہاں سے ہم نے ریل کوپ کو اٹھایا اور خالص پیشہ وارانہ انداز میں لے کر چلے اور الحمدللہ ایک سال میں اس ادارے کا خسارہ نفع میں بدل دیا "۔

"کیا کہا آپ نے ایک سال میں ؟” سیلانی اپنے لہجے کے تحیر پر قابو نہ پا سکا

”جی میں نے ایک سال ہی کہا ہے ۔۔۔آپ ہماری ویب سائیٹ پر ہمارے پروجیکٹس دیکھ سکتے ہیں ، ہم ان دنوں گلگت استور اور آزاد کشمیر کے درمیان 75 کلومیٹر طویل کوریڈور کا پروجیکٹ جیتا ہے ،اس سے گلگت اور آزاد کشمیر کے فاصلے کی مسافت چھ گھنٹے کم ہوجائے گی، اس منصوبے کے لئے ملک کے بڑے بڑے ادارے میدان میں تھے لیکن ٹینڈر ہم نے جیتاالحمدللہ،یہ .989 ارب روپوں کا پروجیکٹ ہے جو اس علاقے کے لئے بڑا ہی اہم ہے ہمیں خوشی ہے کہ ریل کوپ یہ کام کررہی ہے”۔

نجم سعید صاحب بتاتے جارہے تھے اور سیلانی بس سنتا جارہا تھا۔

”ان دنوں ہم ٹی چوک روات پر فلائی اوور بنا رہے ہیں ،اسلام آباد کے سیکٹر آئی پندرہ میں ترقیاتی کام کر رہے ہیں،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سرگودھا ، اٹک ، گلگت ، ساہیوال میں کیمپس بنا رہے ہیں ٹریک ورک شاپ لاہور رائے ونڈ کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں اب  پیسہ بھی آرہا ہے ، ہم کاغذوں میں نہیں بنک کے کھاتوں سے بھی نفع میں ہیں اور یہ بات ہمارا تین تین بار آڈٹ کرنے والے کہتے ہیں “۔

نجم صاحب سے بہت سی باتیں ہوئیں، وہ حقیقی سوچ کے ساتھ منیجمنٹ کے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ریلوے کی نجکاری کے شدید مخالف ہیں بات سے بات نکلی تو کہنے لگے ” نہیں ریلویز کو کسی طور نہیں بیچنا چاہئے دفاعی نکتہ نظر سے ریلویز بہت اہم ہے اور میں تو ہر اس شخص سے پوچھتا ہوں کہ آپ ریلویز کو خسارے کی وجہ سے کیوں بیچ رہے ہو اس کا خسارہ ختم کیوں نہیں کرتے “

”اب شائد یہ ممکن نہیں ؟” سیلانی نے پہلو بدل کر ان کی بات کاٹی

”سو فیصد ممکن ہے ، آپ ریلویز کی زمین کو ہی استعمال کرلیں ریلوے خسارے سے نکل جائے گی ایک بار میری وزیر ریلویز سے بات ہو رہی تھی عرض کیا کہ کراچی میں آئی آئی چندریگر رڈ پر ریلوے کا اربوں روپے مالیت کا کمرشل پلاٹ ہے اس پلاٹ پر بیس منزلہ عمارت کھڑی کرنے کے لئے ریل کوپ کو اجازت دیں انوسٹمنٹ بھی ہم لائیں گے اور بنانا بھی ہماری ذمہ داری ، اس سے ملنے والے ریونیو نے ہی ریلوے کی کمر سیدھی کردینی ہے، یہاں راولپنڈی ریلوے اسٹیشن کو کمرشلائز کرنا سی پیک پروجیکٹ کا بھی حصہ ہے اس پرایک کثیر المنزلہ عمارت کھڑی کرکے وئیرہاؤسز، پارکنگ پلازہ ، بنکوں اور اسی طرح کے اداروں کو جگہ دی جاسکتی ہے 83 کنال کے ریلوے اسٹیشن کو کمرشلائز کرکے ہم سترہ ہزار 450 ملین روپے سالانہ کا ریونیو لے سکتے ہیں ۔۔۔ اور سنیں چھوٹی سی مثال ہے مری میں ریلویز کے پاس چھ کنال کا گیسٹ ہاؤس ہے ویران پڑا ہوا ہے ، بوسیدہ عمار ت ، کوئی حال نہیں کوئی بھلا کیوں جائے؟ میں نے تجویز دی کہ اس پر ایک شاندار ہوٹل بن سکتا ہے ریل کوپ نے اس کی فزیبلیٹی بھی بنائی ، کوئی چار ارب چالیس لاکھ کے اخراجات آنے ہیں ، یہ دس سالوں میں کوئی 8 ارب روپے کما دیتا یعنی پانچ برسوں میں ہی اس پر آنے والا خرچ پورا ہو جانا تھا لیکن ہم تو مشورہ تجویز ہی دے سکتے ہیں اس سے آگے ہمارا اختیار کہاں”۔

”یعنی ریلوے صرف اپنی کمرشل زمین سے ہی اپنا خسارہ پورا کرسکتی ہے” سیلانی نے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا

"جی ، جی ۔۔۔ اور ایک بات اور سن لیجئے یہاں ایک ترک کمپنی آئی تھی اس کے ایک افسر نے مجھ سے کہا کہ آپ کوئٹہ تافتان ریل کیوں نہیں چلاتے 90 ارب ڈالر سال کا ریونیو اس ٹریک پر پڑا ہے جاؤ اور اٹھاؤ” سیلانی تو بس پلکیں جھپکتا رہ گیا نجم سعید کی جگہ کوئی اور شخص یہ سب کہہ رہا ہوتا تو سیلانی اسے "سبزباغ” قرار دے کر چلا آتا لیکن سامنے بیٹھے شخص کی بات میں وزن اس لئے تھا کہ وہ ایک ناممکن کو ممکن کر کے دکھا چکا ہے یہ سید زادہ جب ریل کوپ میں آیا تھا تو یہاں ساڑھے چار کروڑ روپے کے خسارے میں  تھا اور اب یہ 18.91 ارب روپوں کا بزنس دے چکا ہے نفع بخش اداروں میں آ چکا ہے سید نجم سعید صاحب کی سب سے بھلی بات ان کامیابیوں کا کریڈٹ اپنی ٹیم کے نام کرنا لگا وہ گفتگو میں "میں” نہیں "ہم ” کا استعمال کرتے ہیں ایسے ہی کپتانوں کو اِس وقت ڈوبتے اداروں کو ضرورت ہے پتہ نہیں یہ ضرورت ہماری حکومت کو ریل کوپ کیوں نہیں لاتی اسلام آباد کے اس گوشے میں کامیابی کی جیتی جاگتی مثال موجود ہے ، سیلانی نجم سعید صاحب سے الوداعی مصافحہ کر کے باہر نکلا اور استقبالئے سے گزرتے ہوئے شیشے کے پار اپنے اپنے کاموں میں مصروف ریل کاپ کی کامیاب کہانی کے کرداروں کو دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا