بجلی کے بل ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے، زندگی گزارنا مشکل ہے، فائل فوٹو
بجلی کے بل ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے، زندگی گزارنا مشکل ہے، فائل فوٹو

حکومت اور جماعت اسلامی کے مذاکرات، گرفتار کارکنان کی رہائی کا اعلان

راولپنڈی اور اسلام آباد میں جماعت اسلامی کا دھرنا تیسرے روز میں داخل ہوگیا ہے، جماعت اسلامی نے حکومت کے سامنے اپنے دس مطالبات رکھے ہیں جن پر کمشنر آفس راولپنڈی میں آج وفاقی حکومت اور جماعت اسلامی کے وفود میں باقاعدہ مذاکرات کا پہلا دور ہوا، جس میں حکومت نے گرفتار کارکنان کی رہائی کا علان کیا۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے حکومتی کمیٹی کے سامنے ساری تفصیل رکھی ہے، حکومت ان تمام چیزوں کے لیے ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائے گی اور اپنا ہوم ورک کرے گی، پھر مذاکرات کا دوسرا دور ہوگا، لیکن دھرنا ساتھ ساتھ جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا دھرنا تین روز سے جاری ہے، ہم عوام کے مسائل کے حل کے لیے نکلیں ہیں، ہم نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو بتایا کہ یہ ہمارا ذاتی دھرنا نہیں، ہم نے بتایا کہ بجلی کے بل ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے، زندگی گزارنا مشکل ہے۔

نائب امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آئی پی پیز ملکی معیشت کے لیے موت کا پروانہ بن چکا ہے، حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے بتایا کی بین الاقوامی معاہدے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے، ہمارے بین الاقوامی معاہدے چین کے ساتھ ہیں اور چائنہ ہمارا دوست ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات میں ایکسپورٹر اور ملز پر لگائے گئے ٹیکس کے حوالے سے بات ہوئی ہے، حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے کہا کہ ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائیں گے۔

لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمارے کارکنان کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے، محسن نقوی نے کہا ہے کہ ہمارے کارکنان کو رہا کیا جائے گا، ہمارے 35 کارکنان کو مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے، حکومتی مذاکراتی ٹیم نے کہا کہ جلد کارکنان کو رہا کر دیا جائے گا، حکومت سنجیدگی سے کام لے گی تو ٹھیک ہے ورنہ دھرنا جاری رکھا جائے گا۔

خیال رہے کہ حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، حکومتی وفد میں وفاقی وزیر عطا تارڑ، اویس لغاری، طارق فضل، امیر مقام اور وزیراعظم کے میڈیا کوآرڈینیٹر بدر شہباز شامل ہیں، جبکہ جماعت اسلامی کے وفد میں لیاقت بلوچ، امیرالعظیم، سید فراست شاہ اور نصر اللہ رندھاوا شامل ہیں۔

کارکنان کی رہائی کا اعلان

جماعت اسلامی کے وفد سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ جماعت اسلامی نے 35 گرفتار کارکنان کی فہرست دی ہے، حکومت نے کارکنان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کیے ہیں۔

عطاء تارڑ نے کہا کہ ہمارا وژن ہے پاکستان کو چلنے دیا جائے، 200 یونٹ والے صارفین کو سبسڈی دی جارہی ہے، ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے، امید ہے کہ ان اقدامات سے حالات میں بہتری آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اخراجات میں کمی کی جارہی ہے، اخراجات میں کمی اور نجکاری سے معاملات بہتر ہوں گے، ہم عوام کوریلیف دینےکیلئے اقدامات کر رہے ہیں، ہم خوشحال اور خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پاگیا ہے، کل مذاکرات کے اگلے دور میں معاملات طے پا جائیں گے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ مطالبات کی منظوری کا کوئی وعدہ نہیں کرتے، ٹیکنیکل کمیٹی ٹیکنیکل معاملات کو دیکھے گی، کل پھر 12بجے کے بعد مذاکرات ہوں گے۔

اس موقع پر ن لیگی رہنما امیر مقام نے کہا کہ پوری قوم سستی بجلی اور سستا پٹرول چاہتی ہے، ہم سب کی خواہش ہے کہ بجلی اور پٹرول سستا ہو، حکومت کی ٹیکنیکل کمیٹی مذاکرات میں بیٹھے گی، ہم اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ملک چلا رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے مطالبات

اس سے قبل وزیر داخلہ محسن نقوی نے نائب امیر جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔

لیاقت بلوچ نے اس دوران جماعت اسلامی کے مطالبات ان کے سامنے رکھے اور کہا کہ بجلی کے بلوں میں پچاس فیصد رعایت دی جائے، سلیب ریٹ ختم کیے جائیں، آئی پی پیز سے کیپیسٹی پیمنٹ کا معاہدہ ختم کیا جائے اور تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکسوں کا ظالمانہ بوجھ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے۔

جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ حکومت 500 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو 50 فیصد رعایت دے اور پیٹرولیم لیوی ختم اور قیمتوں میں حالیہ اضافہ فوری واپس لے۔

جماعت اسلامی کا مزید مطالبہ ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرکے غیرترقیاتی اخراجات پر 35 فیصد کٹ لگایا جائے، کیپسٹی چارجز اور آئی پی پیز کو ڈالروں میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے اور آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کا ازسر نو جائزہ لیا ۔

جماعت اسلامی نے مطالبہ رکھا کہ زراعت اور صنعت پر ناجائز ٹیکس ختم اور 50 فیصد بوجھ کم کیا جائے، صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار ملے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ختم اور مراعات یافتہ طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔