علی جبران :
’’آئی ایم ایف کو چاہیے کہ قرضہ دینے کے لئے غریبوں کو زہر دینے کی شرط بھی لگا دے‘‘۔ یہ الفاظ لوئر مڈل کلاس بلکہ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شہری کے ہیں۔ جس کی اسّی فیصد تنخواہ پہلے ہی بجلی کے بھاری بھرکم بل کی نذر ہوگئی اور اب اسے ہزاروں روپے مالیت کا گیس کا بل آیا ہے۔ کورنگی کے رہائشی ریحان قریشی پریشان ہیں کہ تنخواہ کا اسّی فیصد حصہ تو ایک بل میں چلا گیا اور باقی ماندہ رقم دوسرے بل کے لئے بھی ناکافی ہے۔ لہٰذا اس کے لئے لامحالہ ادھار پکڑنا ہوگا۔ جبکہ گھر کے اخراجات کو لے کر پہلے ہی وہ بھاری قرضے میں دبے ہوئے ہیں۔ ریحان قریشی ایک نجی ادارے میں پچیس ہزار روپے ماہانہ کی معمولی تنخواہ پر ملازم ہیں۔ ریحان قریشی ایک سو بیس گز کے دو منزلہ مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ گرائونڈ فلور پر دو پورشن میں ان کے بڑے بھائی اور کرائے دار ہے۔ جبکہ فرسٹ فلور کے ایک پورشن میں وہ خود مقیم ہیں۔ دوسرا پورشن خالی ہے۔ پانچ چھ ماہ قبل ریحان قریشی کو بہتّر ہزار روپے کا ناقابل یقین گیس بل آیا تھا۔ سبب گیس لیکیج بتائی گئی۔ رو دھو کے بڑی مشکل سے اس کی تین اقساط کرائی گئیں۔ اب پچھلے مہینے جولائی کا انہیں سات ہزار ایک سو تراسی روپے کا بل آیا ہے۔
یہ ایک ریحان قریشی کی کہانی نہیں۔ کراچی میں ایسے لاکھوں افراد ہیں۔ جنہیں اپنی تنخواہوں سے زیادہ یوٹیلٹی بلز موصول ہورہے ہیں۔ بجلی کے بلوں پر عوام کی چیخیں تو بلند ہو ہی رہی ہیں۔ گیس کے بلوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ’’امت‘‘ نے نیوکراچی، نارتھ کراچی، نارتھ ناظم آباد، اورنگی ٹائون، لیاقت آباد اور ڈی ایچ اے سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر درجنوں صارفین کے پرانے اور نئے گیس بلز دیکھے تو انتہائی اضافہ نمایاں تھا۔
جب آپ کے ہاتھ میں گیس کا بل آتا ہے تو اس پر گیس چارجز کے ساتھ ایک درجن سے زائد مختلف ٹیکسز اور چارجز بھی درج ہوتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے گیس کے بلوں میں اچانک اضافے کا بنیادی سبب فکسڈ چارجز، ایڈیشنل جی ایس ڈی اور پی یو جی جنرل سیلز ٹیکس/ پی یو جی گیس چارجز ہیں۔ یہ نتیجہ درجنوں گیس صارفین کے بلوں کا جائزہ لینے کے بعد نکالا گیا ہے۔ مثلاً گزشتہ ماہ جولائی کے ایک بل میں گیس استعمال کرنے کے چارجز محض ایک سو سات روپے تھے۔ لیکن مختلف ٹیکسز اور چارجز لگاکر یہ بل دو ہزار تین سو چالیس روپے کا بنادیا گیا۔ اس میں میٹر رینٹ چالیس روپے، فکسڈ چارجز چار سو روپے، جنرل سیلز ٹیکس اسٹینڈرڈ ننانوے روپے، پی یو جی سلو میٹر گیس چارجز چار سو سولہ روپے، پی یو جی سلو میٹر جی ایس ٹی پچھتر روپے، ایڈیشنل جی ایس ڈی ایک ہزار دو سوچار روپے، ایڈجسٹمنٹ اور ڈیبٹ کے پینسٹھ روپے شامل ہیں۔ یوں ایک سو سات روپے کی گیس استعمال کرنے والے صارف کو دو ہزار تین سو چالیس روپے بھرنے پڑے۔
اسی طرح ایک اور صارف نے ایک ہزار چھ سو ستتر روپے کی گیس استعمال کی۔ لیکن مختلف چارجز اور ٹیکسز لگاکر یہ بل سات ہزار ایک سو تراسی روپے کا بن گیا۔ تقریباً ہر گھرانے کی یہی روداد ہے۔ ایسے درجنوں گیس بلز نظروں سے گزرے۔ تمام کی تفصیل دینا ممکن نہیں۔
اب آتے ہیں، اس گورکھ دھندے کی طرف۔ جس کی وجہ سے پچھلے کچھ عرصہ میں اچانک گیس بلوں میں اضافہ ہوا۔ یہ تفصیل بڑی ہوشربا ہے۔ مثلاً اگر صرف فکسڈ چارجز کو ہی لے لیا جائے تو اس میں تین ہزار نو سو فیصد کا ظالمانہ اضافہ کیا گیا۔
فکسڈ چارجز کے لیے دو کٹیگریز ہیں۔ ایک پروٹیکٹڈ اور دوسری نان پروٹیکٹڈ۔ پروٹیکٹڈ کٹیگری میں وہ صارفین آتے ہیں جنہوں نے سردیوں کے چار مہینوں نومبر سے فروری تک نوے کیوبک میٹر یا اس سے کم گیس استعمال کی ہو۔ ایسے صارفین کے لیے فکسڈ چارجز چار سو روپے ہیں جو ہر ماہ اس کے بل میں مستقل طور پر لگ کر آرہے ہیں۔ اسی طرح سردیوں کے ان چار ماہ میں نوے کیوبک میٹر سے زیادہ یعنی ایک سو پچاس کیوبک میٹر تک گیس استعمال کرنے والے صارفین نان پروٹیکٹڈ صارفین کہلاتے ہیں۔
ان کے فکسڈ چارجز ایک ہزار روپے اور ایک سو پچاس کیوبک میٹر سے زائد گیس استعمال کرنے والوں کے لئے اضافی دو ہزار روپے فکسڈ ہیں۔ فکسڈ چارجز کی کٹیگریز کے تعین کے لئے یہ جائزہ ہر برس سردیوں کے چار ماہ میں لیا جاتا ہے۔ اور پھر اگلے برس سے صارفین کے بل میں کٹیگریز کے حساب سے فکسڈ چارجز لگ کر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ صارفین کی جیب سے فکسڈ چارجز کے نام پر ہر ماہ اضافی رقم نکلوانے کا سلسلہ نگران دور حکومت میں نومبر دو ہزار تئیس سے شروع ہوا تھا۔
اس سے قبل پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے ماہانہ فکسڈ چارجز محض دس روپے تھے۔ یوں اس مد میں پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے تین ہزار نو سو فیصد کا ناقابل یقین اضافہ کیا گیا۔ جبکہ نان پروٹیکٹڈ کے لئے فکسڈ چارجز چار سو ساٹھ روپے سے بڑھاکر ایک ہزار سے دو ہزار روپے تک کردیئے گئے۔ یوں نان پروٹیکٹڈ صارفین کے فکسڈ چارجز میں بھی ایک سو اٹھارہ فیصد سے لے کر تین سو پینتیس فیصد تک اضافہ کیا گیا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ قدرتی گیس ٹیرف رولز 2022 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’کوئی لائسنس دہندہ… اتھارٹی کے ذریعے، فکسڈ، منظور شدہ، ترمیم شدہ یا نظر ثانی شدہ رقم سے زیادہ کوئی فکسڈ یا متغیر رقم وصول نہیں کرے گا‘‘۔ اس حوالے سے اوگرا کے حتمی فیصلہ میں کسی فکسڈ چارجز کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت گھریلو صارفین سے ایسی رقم کیسے وصول کر رہی ہے۔ جس کی رولز بک اجازت نہیں دیتی۔ ان معنوں میں گیس صارفین پر فکسڈ چارجز کے نام پر وصول کی جانے والی یہ اضافی رقم بظاہر غیر قانونی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فکسڈ چارجز کے نام پر یہ اضافہ سب سے زیادہ پروٹیکٹڈ صارفین کو متاثر کر رہا ہے۔ جن کی تعداد مجموعی صارفین کی دو تہائی بنتی ہے اور یہ زیادہ تر غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔
گیس کے بلوں میں اضافے کا ایک اور سبب ایڈیشنل جی ایس ڈی ہے۔ اس کا مطلب ’’گیس سپلائی ڈیپوزٹ‘‘ ہے۔ جس کے تحت گیس کمپنی اپنے صارفین کے گزشتہ تین مہینے کے گیس بلوں کی رقم اپنے پاس محفوظ رکھتی ہے۔ یعنی دیکھا جاتا ہے کہ صارف کو پچھلے تین ماہ میں جو بل بھیجے گئے۔ ان کی مجموعی رقم کتنی تھی۔ پھر اس رقم کو بل میں ایڈیشنل جی ایس ڈی کے طور پر شامل کردیا جاتا ہے۔ اسے سیکورٹی ڈیپوزٹ سے منسوب کیا گیا ہے۔ جیسے کوئی گھر یا دکان کرائے پر دیتے وقت مالک مکان دو تین مہینے کا کرایہ ایڈوانس یا سیکیورٹی کے طور پر اپنے پاس رکھتا ہے تاکہ اگر کرائے دار کرایہ ادا نہ کرے یا گھر یا دکان میں ٹوٹ پھوٹ ہو جائے تو مالک مکان ڈیپوزٹ میں سے یہ رقم کاٹ لے۔
چنانچہ ایڈیشنل جی ایس ڈی کے نام پر یہ اضافی رقم صارف پر تھوپی جارہی ہے۔ مثلاً اگر کسی صارف کے تین مہینوں کا بل مجموعی طور پر تین ہزار یا ساڑھے پانچ ہزار روپے ہے تو اتنی ہی رقم صارف کے بل میں ایڈیشنل جی ایس ڈی کے طور پر شامل کردی جاتی ہے۔ تاہم حاتم طائی کی قبر کو لات مارنے کے مصداق تین ماہ کے بلوں کی اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کرکے وصولی کی جاتی ہے۔ ایڈیشنل جی ایس ڈی وصولی کے لئے توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی صارف تین ماہ تک بل جمع نہیں کراتا اور اپنا میٹر کٹوا دیتا ہے تو کمپنی کو نقصان ہوگا۔ یعنی اس کے بل کی واجب الادا رقم پھنس جائے گی۔
اسی نقصان سے بچنے کے لیے ایڈیشنل جی ایس ڈی وصول کیا جارہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ اتنے جوکھم کے بعد گیس کا میٹر لگوانے والا، جس پر کئی برس سے پابندی تھی، صرف تین مہینے کی عدم ادائیگی پر اپنا میٹر کیوں کٹوائے گا؟ خاص طور پر گھریلو صارفین تو یہ بے وقوفی نہیں کرسکتے کہ ان کا تین مہینے کا بل زیادہ سے زیادہ ہزاروں میں ہو سکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے کیا وہ اپنا گیس میٹر ہی مستقل کٹوا کر مہنگی ایل پی جی کے لیے دھکے کھانے کو ترجیح دیں گے؟ البتہ بڑی صنعتوں کی بات الگ ہے۔ جن کے واجبات کروڑوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ظالمانہ ایڈیشنل جی ایس ڈی صرف بڑے کمرشل صارفین پر ہی لگنا چاہیے تھا۔ لیکن چند سو اور ہزار روپے والے گھریلو صارفین کو بھی لپیٹ لیا گیا۔
اس ضمن میں ایک اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ گیس کمپنی کے دعوے کے مطابق ایڈیشنل جی ایس ڈی کی یہ رقم قابل واپسی ہے۔ جیسے کوئی کرائے دار گھر یا دکان خالی کرتا ہے تو اسے ایڈوانس یا ڈیپوزٹ کی رقم واپس مل جاتی ہے۔ یہاں ایک بار پھر وہی سوال جنم لیتا ہے کہ کون عقل کا مارا چند ہزار روپے کی واپسی کے لئے اپنا گیس کنکشن مستقل طور پر منقطع کراتا ہے؟ لہذا جی ایس ڈی کی رقم کو ناقابلِ واپسی ہی تصور کیا جائے۔ چونکہ اس وقت گیس کے بلوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اسی تناسب سے صارفین کے ایڈیشنل جی ایس ڈی کی رقم بھی بڑھائی گئی ہے۔
گیس کے بلوں میں پی یو جی چارجز یا سلو میٹر چارجز کا سلسلہ بھی پچھلے چند برس سے تیز ہوگیا ہے۔ پی یو جی یعنی ’’پاسنگ ان رجسٹرڈ گیس‘‘ کا مطلب ہے کہ آپ کا میٹر، گیس کی مقدار کو درست طریقے سے رجسٹر نہیں کر رہا۔ یعنی آپ کا میٹر سست چل رہا ہے۔ لہذا جتنی گیس استعمال ہو رہی ہے ۔ میٹر اس سے کم ظاہر کر رہا ہے۔ ایسا مختلف وجوہات کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ جیسے میٹر میں کسی قسم کی خرابی پیدا ہوجانا یا صارف کی جانب سے کی جانے والی چھیڑ چھاڑ یا میٹر ریڈنگ کے دوران غلطی بھی اس کا سبب ہوسکتی ہے۔ جب بھی کوئی صارف گیس کنکشن کے لیے اپلائی کرتا ہے تو کمپنی اس سے گارنٹی لیتی ہے کہ میٹر سست چلنے کی صورت میں سلو چارجز ادا کریں گے۔ تاہم یہ چارجز ایک ہی بار دینا ہوتے ہیں۔
ایسے ان گنت کیسز ہیں کہ ایک صارف کو کئی کئی بار سلو چارجز لگ کر آئے۔ بعض اوقات کوئی فیملی اگر اپنا گھر بند کرکے بیرون شہر چھٹیاں منانے بھی گئی تو واپسی پر گیس بل میں پی یو جی/ سلو میٹر چارجز لگ کر آگئے۔ نارتھ ناظم آباد کے ایک فلیٹ میں مقیم ایسے ہی ایک راشد نامی صارف کو پچھلے کئی ماہ سے پی یو جی، سلومیٹر چارجز لگ کر آرہے تھے۔ اس کے سبب ان کے بلوں کی رقم دگنی سے زیادہ بن رہی تھی۔ موصوف اپنی فریاد لے کر حیدری میں واقع گیس کمپنی کے ریجنل آفس پہنچے تو دیکھا کہ ان جیسے درجنوں متاثرہ صارفین موجود ہیں۔
راشد نے جب ریجنل آفس کے ذمہ دار کے سامنے اپنی شکایت رکھی اور کہا کہ نہ تو انہوں نے کبھی میٹر سے چھیڑ چھاڑ کی اور نہ ہی انہیں میٹر میں کوئی خرابی دکھائی دی۔ اگر پھر بھی واقعی میٹر سلو چل رہا ہے تو گیس کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ ٹیکنیکل اسٹاف بھیج کر اسے چیک کرائے۔ اس کی سزا انہیں کیوں دی جارہی ہے۔ کافی بحث کے بعد ریجنل آفس کے مذکورہ ذمہ دار نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اعتراف کیا ’’بھائی ہم تو خود پریشان ہیں۔ درجنوں صارف یہی شکایت لے کر آرہے ہیں۔ سب ہیڈ آفس کی طرف سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں‘‘۔ قصہ مختصر ان صاحب نے کمپیوٹر میں متاثرہ صارف کا ریکارڈ دیکھا اور درستگی کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد سے راشد کو اب تک سلو چارجز لگ کر نہیں آئے۔
حالانکہ گیس کمپنی کی کسی ٹیکنیکل ٹیم نے میٹر کا معائنہ بھی نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ میٹر میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ ایک منصوبے کے تحت صارفین کو سلو میٹر چارجز لگاکر بھیجے جاتے ہیں۔ جو فریاد لے کر پہنچ جائے، ان میں سے بیشتر کی شنوائی ہوجاتی ہے۔ بصورت دیگر جو صارفین کاہلی یا اپنی مصروفیات کی وجہ سے گیس کمپنی کے چکر نہیں لگا پاتے۔ ان سے سلومیٹر چارجز کے نام سے مسلسل پیسے بٹورے جاتے ہیں۔