عمران خان :
وفاقی ادارہ کورنٹائن ڈپارٹمنٹ پرندوں کی اسمگلنگ کا سرپرست بن گیا ہے۔ تین سے چار پنجروں کو لکڑی کی پٹیوں اور کیلوں کے ذریعے جوڑ کر ایک پنجرہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ایک سر ٹیفکیٹ پر 5 سے 10 گنا زائد پرندے بیرون ملک اسمگل کئے جا رہے ہیں۔ کورنٹائن افسران کے علاوہ کسٹم افسران بھی رشوت وصولی میں ملوث ہیں۔ پنجروں کو آپس میں جوڑ کر بجری طوطوں کی آڑ میں نایاب پرندے اور عقاب بھی اسمگل کیے جا رہے ہیں۔ ایک سرٹیفکیٹ پر کئی کئی کھیپیں کلیئر کی جا رہی ہیں۔ اسمگلنگ کے لیے نجی ایئر لائنز کی رات کے اوقات میں بیرون ملک جانے والی پروازوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
ذرائع کے بقول کورنٹائن ڈپارٹمنٹ اور محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے افسران ہی پرندوں کی اسمگلنگ کے سرپرست بن گئے ہیں۔ ایک ہی لائسنس اور سرٹیفکیٹ پر کئی کئی کھیپیں بیرون ملک منتقل کی جارہی ہیں۔
اہم ذرائع نے کرپشن اور بد عنوانیوں کے جن سنگین حقائق سے پردہ اٹھایا ہے، ان کے مطابق بجری طوطوں کی آڑ میں پرندوں کے ڈیلرز نہ صرف نایاب پرندے اسمگل کررہے ہیں بلکہ عقاب بھی ایکسپورٹ کیے جانے لگے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب پرندے بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کے ڈیلرز، وفاقی محکمہ وائلڈ لائف کے حکام سے مخصوص تعداد میں پرندے ایکسپورٹ کرنے کے لائسنس حاصل کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی ڈیلر کو تین ماہ کے لئے لائسنس جاری کیا جاتا ہے تو اس کی شرائط کے مطابق مقررہ معیاد کے دوران صرف ایک ہزار پرندے ہی ایکسپورٹ کیے جاسکتے ہیں۔ اب یہ پرندے 50 یا 100 کی تعداد میں 10 سے 20 کھیپوں کی صورت میں بیرون ملک بھجوائے جائیں یا پھر ایک ہزار کی ایک ہی کھیپ میں ایکسپورٹ کئے جائیں، یہ ڈیلرز کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ تاہم کورنٹائن ڈپارٹمنٹ اور محکمہ وائلڈ لائف کے افسران کو رشوت دے کر کئی گنا زائد پرندے بیرون ملک بھجوائے جار رہے ہیں جو صریحاً اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک جانب قومی خزانے کو ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں کروڑوں روپے سے محروم کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب ملک میں پائے جانے والے نایاب پرندوں کی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس وقت 2 درجن سے زائد ایکسپورٹ کمپنیوں کے ڈیلرز لائسنس یافتہ ہیں اور وہ پرندے بیرون ملک ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ تاہم جس کھیپ میں 50 پرندے ظاہر کیے جاتے ہیں اور ان کی ڈیوٹی ادا کی جاتی ہے، اس کھیپ میں 500 سے ہزار پرندے بیرون ملک منتقل کیے جا رہے ہیں۔ اس کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق پرندوں کے ڈیلرز 50، 50 یا 100، 100 پرندوں کے 4 سے 5 پنجرے لے کر آتے ہیں اور ان کو کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ اہلکاروں کے ذریعے لکڑیوں کی پٹیوں اور کیلوں کے ذریعے جوڑ کر ایک پنجرہ بنا دیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایکسپورٹ کے لئے پنجروں کا سائز متعین ہے۔ تاہم ملی بھگت کے ذریعے چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے پنجرے کارگو میں منتقل کئے جا رہے ہیں ۔
جن ڈیلروں کو تین ماہ کے لائسنس پر ایک ہزار پرندے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت ہے وہ ہر کھیپ میں 1 ہزار پرندے ایکسپورٹ کرنے کے باجود ان کی تعداد 50 یا 100ہی ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح پورے تین مہینے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان کے ایک ہزار پرندوں کی تعداد پوری نہیں ہو پاتی اور وہ مسلسل پرندے ایکسپورٹ کرتے ہی رہتے ہیں ۔
یہ تمام کرپشن محکمہ وائلڈ لائف کے افسران کی ملی بھگت سے کی جا رہی ہے جبکہ ہر کھیپ کی ایکسپورٹ کے لئے کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ لازمی بنوایا جاتا ہے جس میں پرندوں کی تعداد بھی درج ہوتی ہے تاہم کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے اہلکار بھی رشوت لے کر کئی گنا زائد پرندوں کی کھیپ کلیئر کردیتے ہیں۔ اس کام کے لئے ایک ہی سرٹیفکیٹ کو متعدد بار استعمال کیا جا تا ہے۔ جس کے لئے کسٹم اہلکاروں کوبھی رشوت دی جاتی ہے۔
طریقہ کار کے مطابق ایک کھیپ سرٹیفکیٹ دکھا کر کلیئر کرنے کے بعد اس سرٹیفکیٹ کو کھیپ کے لئے کسٹم ریکارڈ کا حصہ بنانے کے بجائے واپس لے جایا جاتا ہے اور دوسری کھیپ کلیئر کروانے کے لئے بھی یہی لیٹر استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے رجسٹر میں ان دونوں کھیپوں کو ایک ہی انٹری میں سرٹیفکیٹ نمبر کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔