امت رپورٹ :
بھارت کی مودی سرکار نے اپنی کٹھ پتلی حکومت گرائے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں خانہ جنگی کرانے کا پلان بنایا ہے، جس کے تحت طلبہ تحریک کو کائونٹر کرنے کے لئے بھارت نواز ہندوئوں اور عوامی لیگ کے کارکنوں کو میدان میں اتارنے کا آغاز کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں طلبا تحریک کو کائونٹر کرنے کے لئے بھارت نواز ہندوئوں اور عوامی لیگ کے کارکنوں کو میدان میں اتارا جارہا ہے تاکہ عوام کو باہم لڑا کر قتل و غارت کرائی جائے اور یہ ثابت کیا جاسکے کہ حسینہ واجد کی حکومت سے بیدخلی ملک میں عدم استحکام لائی ہے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر عوامی لیگ کے غنڈوں کو دوبارہ متحرک کیا جارہا ہے۔ عوامی لیگ کی جانب سے ناصرف طلبہ تحریک کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، بلکہ ہفتے کی سہ پہر عوامی لیگ کے کارندوں کے ایک جتھے نے ایک فوجی گاڑی پر حملہ کیا اور اسے آگ لگادی۔ اس جھڑپ میں پندرہ افراد زخمی ہوئے، جن میں فوجی اہلکار، صحافی اور مقامی لوگ شامل ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت ضلع گوپی ناتھ پور کے بس اسٹینڈ پر پیش آیا، جب عوامی لیگ کے مقامی رہنمائوں اور کارکنوں نے ڈھاکا کھلنا ہائی وے کو بلاک کردیا تھا اور وہ شیخ حسینہ کی ملک واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ فوج نے موقع پر پہنچ کر بھیڑ کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا تو عوامی لیگ کے کارندوں نے اینٹوں سے حملہ کردیا اور گاڑی کو آگ لگادی۔ بعد ازاں حملہ آوروں کو منتشر کرنے کے لئے فوج کو گولی چلانی پڑی۔
گوپال گنج کے کوٹلی پارا ضلع میں بھی عوامی لیگ کے کارکنان نے مظاہرہ کیا اور شیخ حسینہ کی واپسی کے لئے سروں کو کفن باندھ کر حلف اٹھایا۔ اس مظاہرے کی قیادت عوامی لیگ کا ضلعی صدر محبوب علی خان کر رہا تھا، جس کا بھارت آنا جانا رہتا ہے۔ محبوب علی خان نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک شیخ حسینہ واپس نہیں آجاتی، ہم سڑکوں پر رہیں گے‘‘۔ واضح رہے کہ گوپال گنج کا کوٹلی پاڑہ شیخ حسینہ کا حلقہ ہے۔ وہ اس سیٹ سے آٹھ بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔ اس حلقے میں عوامی لیگ کے غنڈے طلبا تحریک کے قتل عام میں پیش پیش تھے۔
دوسری جانب شاہ باغ کے مقام پر جہاں چند روز پہلے تک حسینہ واجد حکومت کے خلاف طلبا تحریک کے مظاہرین نے دھرنا دے رکھا تھا، اب وہاں پچھلے دوروز سے ہندوئوں کا مظاہرہ چل رہا ہے۔ بھارت کے ہمدرد ان ہندو مظاہرین کی تعداد اگرچہ چند سو سے زیادہ نہیں، تاہم انہوں نے امن وامان خراب کرنے کے لئے ہر قسم کا ٹریفک بلاک کر رکھا ہے اور ایسے نعرے لگائے جارہے ہیں، جس سے طلبہ تحریک کے مظاہرین میں اشتعال پھیلے۔
اقلیتوں کے حقوق سے متعلق بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن پریشد نامی تنظیم نے ملک کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کو ایک لیٹر بھی لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے ’’ پانچ اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک کے باون اضلاع میں ہندوئوں پر حملے کے دو سو پانچ واقعات ہوئے ہیں۔ ہم ساری رات اپنے گھروں اور مندروں کی حفاظت کے لئے جاگتے ہیں۔ ہم نے اپنی ساری زندگی میں ایسے واقعات نہیں دیکھے‘‘۔ مبصرین بنگلہ دیش میں طلبا مظاہرین کی جانب سے ہندوئوں پر حملوں کو مکافات عمل قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بقول طلبا تحریک کے مظاہرین کو غصہ ہے کہ سن اکہتر میں ان بھارت نواز ہندوئوں نے بھی پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنا گھنائونا کردار ادا کیا تھا۔ اب انہیں وہی کاٹنا پڑرہا ہے، جو انہوں نے بویا تھا۔
ادھر طلبا تحریک کی قیادت کی جانب سے حسینہ واجد حکومت کی باقیات کا صفایا جاری ہے۔ ہفتے کے روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھ ججز استعفیٰ دے کر بھاگ نکلے۔ ان تمام ججز کو طلبا تحریک کی قیادت نے مستعفی ہونے کے لئے دو گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا، جو ہفتے کی دوپہر ایک بجے ختم ہونا تھا۔ یہ الٹی میٹم طلبا تحریک کے کوآرڈینیٹر حسنات عبداللہ نے مظاہرین کے ہمراہ سپریم کورٹ کا محاصرہ کرکے دیا تھا اور کہا تھا کہ، اگر ججز نے مقررہ وقت تک استعفے نہیں دیئے تو ان کی رہائش گاہوں کا گھیرائو کیا جائے گا۔ تاہم خوف زدہ ججز نے الٹی میٹم سے پہلے ہی نکل جانے میں عافیت جانی۔ اس سلسلے میں پہلا استعفیٰ بنگلہ دیشی چیف جسٹس عبید الحسن کا تھا۔
اس استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے مشیر پروفیسر آصف نذر نے بتایا ’’چیف جسٹس عبید الحسن کا استعفیٰ وزارت قانون میں پہنچ چکا ہے۔ ہم بلا تاخیر اسے صدر مملکت کو بھیج دیں گے‘‘۔ چیف جسٹس عبید الحسن کے استعفے کے کچھ ہی دیر بعد سپریم کورٹ اپیلٹ ڈویژن کے مزید پانچ ججز بھی بھاگ نکلے۔ مستعفی ہونے والے ان پانچ ججوں میں جسٹس ایم عنایت الرحیم، جسٹس محمد ابو ظفر صدیق، جسٹس جہانگیر حسین سلیم، جسٹس شاہین الاسلام اور جسٹس کشف حسین شامل ہیں۔ طالبعلم رہنما حسنات عبداللہ نے نئے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس سید رفعت احمد کو چیف جسٹس بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس مطالبے کے کچھ دیر بعد ہی صدر محمد شہاب الدین نے جسٹس سید رفعت احمد کو بنگلہ دیش کا پچیسواں چیف جسٹس مقرر کردیا۔ طلبا تحریک کے مظاہرین نچلی عدالتوں تک محاصرہ بھی کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ حسینہ واجد حکومت کی سہولت کاری کرنے والے نچلی عدالت کے ججوں کو بھی فارغ کیا جائے، جنہوں نے طلبا کے قتل عام میں اپنا رول ادا کیا۔ اس سلسلے میں طلبا مظاہرین نے ایک درجن سے زائد اضلاع میں نچلی عدالتوں کا گھیرائو کیا ۔
قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے مشیر آصف نذر نے ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مختلف اضلاع میں نچلی عدالتوں کے محاصرے کی اطلاعات ملی ہیں۔ تاہم انہوں نے طلبا سے درخواست کی کہ وہ ملک کی نچلی عدالتوں کے طریقہ کار میں رکاوٹ یا انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ ان کے بقول طلبا نے سپریم کورٹ کے جن ججز کے استعفوں کا مطالبہ کیا تھا، وہ جا چکے ہیں۔ ججز کے علاوہ حسینہ واجد سے قریبی تعلق رکھنے والے بنگلہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مقصود کمال نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔
طلبا تحریک کو کائونٹر کرنے کے لئے بھارتی ایما پر عوامی لیگ کے جو غنڈے سڑکوں پر نکلے ہیں، وہ ناصرف شیخ حسینہ کی واپسی کا اصرار کر رہے ہیں بلکہ ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ تاہم عبوری کابینہ میں شامل ہونے والے طلبا تحریک کے سرخیل ناہید اسلام نے اعلان کیا ہے کہ اہم اصلاحات کے بغیر انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے دفتر میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ناہید اسلام کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت بہت سے وعدوں کے ساتھ قائم ہوئی ہے۔ ریاست کی تنظیم نو اور اصلاحات کے بغیر انتخابات یا کوئی اور کوشش موثر ثابت نہیں ہوگی۔