کسٹمز کی سرکاری آئی ڈی تک رسائی بھی حاصل ہے، فائل فوٹو
کسٹمز کی سرکاری آئی ڈی تک رسائی بھی حاصل ہے، فائل فوٹو

برآمدات کا مرکزی پوائنٹ پرائیویٹ شخص کے حوالے

عمران خان :
پاکستان سے ہونے والی برآمدات کے سب سے بڑے اور مرکزی مقام پورٹ قاسم ایکسپورٹ کلکٹریٹ کا نظام ایک پرائیویٹ شخص کے حوالے کردیا گیا۔ اشرف حسین نامی یہ ’’لپو‘‘ (پرائیویٹ شخص) کسٹمز پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے افسران کیلئے اس قدر اہم اور کارآمد ہے کہ اسے 16 گریڈ کے افسر کی کرسی اور سرکاری کمپیوٹر بھی فراہم کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ پرائیویٹ شخص کسٹمز کی سرکاری آئی ڈی تک رسائی رکھتا ہے اور برآمدکنندگان کے سامان کی دستاویزات کی خود چھان بین کرکے اس کی کلیئرنس کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ اور اس کے عوض لی جانے والی ’’اسپیڈ منی‘‘ یعنی رشوت کی رقم بھی طے کرکے وصول کرتا ہے۔

موصول معلومات کے مطابق یوں تو اس وقت ملک کے تمام ہی ایئر پورٹس اور زمینی سرحدی مقامات کے علاوہ کراچی کی بندرگاہوں کے ٹرمنل سے بیرون ملک جانے والے سامان کی کلیئرنس کی جاتی ہے۔ ان مقامات پر کسٹمز اپریزمنٹ ایکسپورٹ کے افسران تعینات ہوتے ہیں جو برآمدکردہ سامان کی چھان بین اور دستاویزات کی اسکروٹنی کے بعد یہ سامان کلیئر کرتے ہیں۔ تاہم ماڈل کسٹمز اپریزمنٹ پورٹ قاسم ایکسپورٹ وہ مقام ہے جہاں سے سب سے زیادہ مقدار میں سامان بیرون ملک بر آمد کیا جاتا ہے۔ یہاں سے کراچی اور ملک بھر کے ٹیکسٹائل، ہوزری، گارمنٹس، چمڑے، کھیلوں کے سامان ، مرچ مصالحے ، کھانے پینے کی اشیا ، چاول اور مختلف قسم کے اناج سمیت برآمد ہونے والا سامان کلیئر ہوتا ہے۔

اس وقت پورٹ قاسم ایکسپورٹ کی کلکٹر سعدیہ شیراز ہیں۔ جبکہ ان کے ماتحت عمر لطیف ڈپٹی کلکٹر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل اشرف حسین لپو ایک ایڈیشنل کلکٹر کے ماتحت 3 برس کام کرتا رہا جن کا اب یہاں سے ٹرانسفر ہوچکا ہے۔ لیکن اشرف حسین یہیں موجود ہے اور اس افسر سے رابطے میں ہے۔ ذرائع کے مطابق یہاں کیو آئی سی ٹی پر اعلیٰ افسران کے نام پر ایک لپو یعنی پرائیویٹ شخص اشرف حسین کئی برس سے قاسم انٹرنیشنل کنٹینرز ٹرمنل (کیو آئی سی ٹی) پر برآمدات کی گڈز ڈکلریشن یعنی جی ڈیز کلیئر کرانے کیلئے فی کھیپ لاکھوں روپے وصول کر رہا ہے۔

یہ رقم ہر قسم کے تجارتی فراڈ کے عوض وصول کی جاتی ہے جو برآمد کنندگان کمپنیوں کے مالکان اپنے کلیئرنگ ایجنٹوں کی مدد سے کروڑوں روپے کے ٹیکس بچانے اور اضافہ منافع کمانے کیلئے کرتے ہیں۔ تاہم جو برآمد کنندگان اور تاجر ٹیکس میں ہیرا پھیری نہیں کرتے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا سامان بیرون ملک بھجواتے ہیں وہ اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹ بھی اس پرائیویٹ شخص کی من مانیوں سے عاجز آچکے ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنا سامان جلد اور بغیر کسی رکاوٹ کے کلیئر کروانا ہوتا ہے توان سے بھی ہر جی ڈی ( سامان کی کھیپ کلیئر کروانے کے لئے جمع کروائے جانے والی دستاویزات) پر 2 لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ٹیکس چوری کے لئے سامان اور ان کی دستاویزات میں جعلسازی کرنے والے تاجر اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹ ہر وقت فی کھیپ پر دو لاکھ دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس کے عوض کروڑوں روپے کی بچت کرنی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لاکھوں روپے اس لپو کے علاوہ دیگر متعلقہ افسران اور ایجنٹوں کو بھی دے دیتے ہیں ۔

ٹیکس فراڈ کی ان وارداتوں میں مس ڈکلریشن یعنی (سامان کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور کیا جاتا ہے)، انڈر انوائسنگ یعنی (سامان کی قیمت اور مقدار کو کم ظاہر کرنا) اور دیگر قسم کے ٹیکس جرائم شامل ہیں۔ اس وقت بھی اس شخص نے اپنے ذریعے سامان کلیئرکروانے والوں سے فی کنٹینر مکس سامان کا ریٹ 2 لاکھ روپے مقرر کر رکھا ہے اور دن میں ایسی درجنوں جی ڈیز ا س کے پاس کلیئرنس کیلئے آتی ہیں۔ اشرف حسین کسٹمز کا ملازم نہ ہونے کے باجود کرسی ٹیبل استعمال کرکے اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس نیٹ ورک کے ذریعے ہر ماہ کروڑوں روپے رشوت متعلقہ کلکٹریٹ کے افسران کے ناموں پر تقسیم کرنے کیلئے جمع ہوتی ہے۔ جس میں انٹیلی جنس اور انفورسمنٹ کے نام پر بھی وصولی کی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول حالیہ عرصہ میں ہی پورٹ قاسم ایکسپورٹ کلکٹریٹ سے گارمنٹس اور ٹیکسٹائل سے منسلک متعدد معروف صنعتی یونٹوں کی جانب سے کی جانے والی بر آمدات میں مس ڈکلریشن بھی کی گئی۔

ذرائع کے بقول مذکورہ دونوں قسم کی بر آمدات سے منسلک صنعتوں کے تاجروں کو گرین چینل کی سہولیات میسر ہیں جن میں پوری کھیپ پر مشتمل کنٹینرز کے بجائے اکا دکا کنٹینرز کی سرعت سے چیکنگ ہوتی ہے۔ تاہم کئی واقعات میں مس ڈکلریشن پکڑے جانے کے باجود معاملات صرف ریکوری تک محدود کرلئے گئے۔ تاہم ان معروف صنعتی یونٹوں سے گرین چینل کی سہولت واپس لیکر انہیں ریڈ یعنی سرخ چینل کے سخت چیکنگ کے سسٹم میں نہیں ڈالا گیا۔

واضح رہے کہ گرین چینل کی سہولت ان کمپنیوں کو میسر ہوتی ہے جن کی ساکھ بہترین ہو۔ تاہم کسٹمز ونگ کے رسک منجمنٹ اور آٹو میشن ڈائریکٹوریٹ میں بھی مبینہ طور پر کرپشن کی وجہ سے بڑے صنعتی یونٹ اپنے معاملات طے کر والیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی کھیپوں کے حوالے سے سامنے آنے والے کیسوں کو دبا دیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق کراچی سمیت ملک کے بڑے ٹیکسٹائل اور گارمنٹ کے صنعتی یونٹ ہر سال اربوں روپے کا خام مال بیرون ملک سے سبسڈی اور ٹیکس چھوٹ کر درآمدکرتے ہیں کہ وہ اس سامان سے ایکسپورٹ کوالٹی کا سامان بنا کر واپس بر آمد کریں گے۔ جس پر حکومت بر آمدات کی فروغ کے لئے ان یونٹوں کے مالکان کو ہر طرح کی سہولت دیتی ہے تاہم کئی صنعتی یونٹوں کے مالکان ٹیکس چھوٹ پر سامان درآمد کرکے ملک میں کمرشل نرخوں پر فروخت کردیتے ہیں اور ایک جانب ٹیکس بچاتے ہیں اور دوسری جانب مقامی مارکیٹ سے زیادہ منافع کما لیتے ہیں۔ تاہم جب اسی سامان سے ایکسپورٹ میٹریل بنا کر برآمد کرنے کا وقت آتا ہے تو ناقص کوالٹی اور مقامی میٹریل سے تیار کردہ مصنوعات برآمد کرکے اپنا ریکارڈ درست کر لیتے ہیں۔