اقبال اعوان :
کراچی میں واقع قبرستانوں میں سرگرم گورکن مافیا سے نجات ملنے کی شہریوں کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ سندھ حکومت نے نئے قبرستانوں کے لیے اراضی مختص کرنے سے انکار کر دیا کہ شہری حکومت اور صوبائی حکومت مل کر کوئی راستہ نکالیں۔
دوسری جانب قبرستانوں پر تجاوزات ختم کرانے کا کوئی آپشن زیرغور نہیں ہے۔ گورکن پرانی قبریں مسمار کر کے نئی قبریں بنا کر فروخت کررہے ہیں۔ قبرستانوں کی بائونڈری وال نہ ہونے کے باعث مدفن خواتین کے ساتھ بے حرمتی کے واقعات پر شہری شدید پریشان ہیں۔ فیصل ایدھی نئے لاوارث قبرستان کے لیے سندھ حکومت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں جبکہ شاہراہ فیصل پر واقع گورا قبرستان کی انتظامیہ جگہ ختم ہونے پر مزید نئی زمین کے حوالے سے خطوط لکھ چکے ہیں۔ مہنگائی اور اخراجات بڑھنے پر شہر میں چلنے والی میت بسوں کے کرائے 2 سے 5 ہزار روپے بڑھا دیے گئے ہیں۔ شہریوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مفت قبر اور مفت میت بس کے حوالے سے غریب افراد کو سہولتیں میسر کی جائیں۔
واضح رہے کہ کراچی کی آبادی لگ بھگ 3 کروڑ ہے یہاں پر عرصہ دراز سے 213 قبرستان واقع ہیں۔ میوہ شاہ، مواچھ گوٹھ قبرستان کے علاوہ بعض قبرستان میں مسیحی اور ہندو افراد کی قبریں بھی ہیں۔ جبکہ مختلف قومیت، کمیونٹی، فرقوں کی قبریں ہیں۔ کے ایم سی نے 10 سال قبل باقاعدہ سروے شروع کیا تھا کہ قبرستان میں موجود گورکنوں کی رجسٹریشن، تدفین کے حوالے سے آسانی پیدا کی جائے۔ تاہم شہر بھر میں بمشکل 50 سے زائد قبرستان پر کے ایم سی کے ذمے دار بٹھائے گئے جو ساڑھے 10 ہزار روپے سرکاری چارجز وصول کرتے ہیں اور یونین کونسل کی سطح پر موت کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جاتا ہے۔
کراچی کے قبرستانوں میں گزشتہ 20 سال سے بورڈ آویزاں ہیں کہ قبرستان میں تدفین کی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے کہیں اور تدفین کرائیں۔ جبکہ ساتھ ساتھ یہ تحریر ہے کہ اگر اس قبرستان میں آپ کا کوئی عزیز مدفون ہے اور اس کے ورثا اجازت دیں تو اس کی پرانی قبر میں نئی تدفین کرائی جا سکتی ہے۔ اس طرح گورکنوں نے دھندے کا جواز بنالیا اور پرانی قبروں کو مسمار کر کے نئی قبر فروخت کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب شہری اپنے پیاروں کو قربی قبرستان یا بڑوں کی قبروں کے قریب جگہوں پر دفن کرنا چاہتے ہیں تو غریب طبقہ 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک رقم کہاں سے لائے۔
صوبائی حکومت بار بار وعدے کرتی رہی کہ نئے قبرستانوں کے لیے نئی اراضی رکھی جائے گی۔ تاہم تین چار روز قبل سندھ کے بلدیات کے وزیر نے کہا کہ نئی اراضی مختص نہیں کر سکتے لہٰذا انتظامیہ اور شہری حکومت مل کر کوئی راستہ نکالیں کہ شہریوں کا مسئلہ حل ہو سکے۔ اب شہری اور صوبائی حکومت تجاوزات کی وجہ سے محدود ہونے والے قبرستانوں میں کہاں جگہیں نکالیں گی۔ مضافاتی علاقوں، کچی آبادیوں میں واقع قبرستان کے اطراف گھر، کارخانے، مختلف تجاوزات قائم کر دی گئی ہیں اور قبرستان کی اصل جگہ بہت کم ہو گئی ہے۔
میوہ شاہ میں 50 سے 60 فیصد جگہ پر گھر، کارخانے بنائے گئے ہیں اور کمیونٹی کے قبرستان والوں نے احاطے الگ کر لیے ہیں۔ کورنگی چکرا گوٹھ قبرستان پر تجاوزات کی بھرمار ہے شہر میں قبرستانوں پر دکانیں، گھر قائم ہیں۔ کورنگی نمبر 6 کا قبرستان ہو یا شاہراہ فیصل پر کالونی گیٹ کا قبرستان ہو۔ ہر طرف تجاوزات قائم کی جا رہی ہیں۔ سرکاری طور پر نئی اراضی نہ ملنے پر گورکن مافیا خوش ہے کہ شہریوں کو مجبور ہو کر ان سے مہنگی قبریں حاصل کرنا ہوں گی۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ غریب گھرانے مرنے والوں کے لیے سردخانے کی سہولت، غسل کفن، تابوت، قبر مفت حاصل نہیں کر سکتے ہیں کہ فلاحی ادارے رعایت نہیں کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ مفت ایمبولینس کے ساتھ ساتھ مفت میت گاڑی دینے اور مفت قبر دینے کے حوالے سے کوئی فلاحی ادارہ بنائیں۔