علی جبران :
فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد ان سے جڑی بہت سی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں۔ لیکن ایک ان کہی کہانی ایسی ہے، جو اب تک سامنے نہیں آسکی ہے۔ یہ قصہ، معروفِ زمانہ فارن فنڈنگ کیس کا ہے۔ یہ کیس شیطان کی آنت کی طرح آٹھ برس تک لٹکا رہا۔ آخرکار اگست دو ہزار بائیس میں اس کا فیصلہ ہوا۔ اس کیس کو مینیج کرنے والے اور درخواست گزار اکبر ایس بابر کو اس کیس سے دستبردار کرانے کے لئے جنرل فیض حمید نے کیا کیا کوششیں کیں؟ یہ کوششیں ناکام کیسے ہوئیں؟ کوششیں ناکام ہونے پر درخواست گزار اکبر ایس بابر کو کن تلخ ترین تجربات اور مشکلات سے گزرنا پڑا؟ یہ بڑے چونکا دینے والے حقائق ہیں۔
اکبر ایس بابر کو فارن فنڈنگ کیس سے دستبردار کرانے کے لئے عمران خان کی ڈائریکشن پر جنرل فیض حمید اور ان کے جونیئرز نے کم از کم پانچ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں اکبر ایس بابر سے کیا فرمائشیں کی جاتی رہیں اور کیا لالچ دیئے گئے؟ اس سلسلے میں ہم نے اکبر ایس بابر کو کریدنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن شاید وہ اس پر ابھی لب کشائی نہیں کرنا چاہتے۔ چنانچہ ہم نے اپنے دیگر مصدقہ ذرائع سے رابطہ کیا جو اس کہانی کے عینی شاہدین ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ون پیج چل رہا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نو مئی جیسا سانحہ ہوجائے گا۔ لہٰذا اس وقت فارن فنڈنگ کیس کو ہی عمران خان اپنے اور اپنی پارٹی کی بقا کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ جنرل فیض حمید کو ڈائریکشن دی گئی کہ اس کیس سے ان کی جان چھڑائی جائے۔ جنرل فیض حمید جون دو ہزار انیس سے نومبر دو ہزار اکیس تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ لیکن دو ہزار سترہ میں وہ ڈی جی سی بن چکے تھے۔
یہ دو ہزار انیس کے اواخر کی بات ہے ، جب اکبر ایس بابر سے پہلی ملاقات کی گئی۔ یہ ملاقات جنرل فیض حمید کے نائب نے کی جو کم از کم دو سے ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات کا خلاصہ یہ ہے کہ اکبر ایس بابر کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ وہ فارن فنڈنگ کیس سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ جس کے جواب میں اکبر ایس بابر کا کہنا ہوتا تھا کہ ایک ایسی پارٹی جسے بیرون ملک سے فنڈنگ ہوئی، اس کی تحقیقات سے منہ موڑنا ملک کے مفاد میں نہیں، بلکہ ملکی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ملکی سلامتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ بھارت، امریکہ حتیٰ کہ اسرائیل سے ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ کا ایجنڈا معلوم کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ یوں پہلی ملاقات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی۔
جب پہلی ملاقات ناکام رہی تو جنرل فیض حمید نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے مصدقہ ذرائع کے مطابق یہ ملاقات بھی دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔ جنرل فیض حمید کا بھی اکبر ایس بابر سے یہی کہنا تھا، جو ان کے نائب کہہ کر جاچکے تھے۔ یعنی فارن فنڈنگ کیس واپس لے لیا جائے، فی الحال یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ لیکن اکبر ایس بابر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور انہوں نے یہی کہا کہ پی ٹی آئی کو ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ ملک کے مفاد میں نہیں۔ جب جنرل فیض حمید نے دیکھا کہ لوہا نہیں پگھل رہا تو انہوں نے پرکشش پیشکشیں شروع کردیں۔
اکبر ایس بابر کو کہا گیا ، پی ٹی آئی کی حکومت میں جو وزارت چاہتے ہو، مل جائے گی، اگر سینیٹر شپ چاہیے تو وہ بھی پلیٹ میں رکھ کر دے دی جائے گی۔ حتیٰ کہ یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر اکبر ایس بابر کہیں تو وہ عمران خان کو ان کے گھر پر لے آتے ہیں تاکہ درمیان کا کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ تاہم ان آفرز کو بھی اکبر ایس بابر نے مسترد کردیا اور کہا کہ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد یا کسی لالچ اور وزارت کے حصول کے لئے فارن فنڈنگ کیس دائر نہیں کیا، بلکہ خالصتاً پارٹی اور ملک کے مفاد میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ جس پر فیض حمید نے زچ ہوکر کہا ’’کیا چاہتے ہو؟‘‘ اکبر ایس بابر نے کہا ’’میں اپنی پارٹی تحریک انصاف کی واپسی چاہتا ہوں، جو ہائی جیک کرلی گئی ہے‘‘۔ فیض حمید نے کہا ’’جاسکتے ہو‘‘۔ یوں یہ دوسری ملاقات بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوگئی۔ لیکن کوششیں ترک نہیں کی گئیں۔ اس کے بعد بھی اکبر ایس بابر کو قائل کرنے کے لئے مزید تین ملاقاتیں کی گئیں۔ تاہم یہ ملاقاتیں فیض حمید کے جونیئرز نے کیں۔ لیکن ان ملاقاتوں کا نتیجہ بھی ڈھاک کے تین پات نکلا۔
اکبر ایس بابر سے ہونے والی میٹنگز میں چہرے بدلتے رہے۔ لیکن ہر میٹنگ میں ایک شخصیت ضرور موجود ہوتی تھی، جس کا نام آج کل ہرجگہ پر آرہا ہے۔ وہ کرنل ریٹائرڈ لیاقت علی تھے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ون پیج کے زمانے میں اسلام آباد میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کی پوری کابینہ چلایا کرتے تھے۔ گزشتہ برس فروری میں میڈیا میں یہ رپورٹ آئی تھی کہ کرنل لیاقت علی وسیم اور ان کے اہل خانہ برطانیہ جانے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے اہل خانہ کو جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن کرنل لیاقت کو روک لیا گیا۔ کرنل لیاقت کو فیض حمید کا خاص آدمی قرار دیا جاتا ہے۔ ذرائع نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ اکبر ایس بابر سے کی گئی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات میں ایک نفسیات داں کو بھی بٹھایا گیا تھا تاکہ وہ دوران گفتگو اکبر ایس بابر کا نفسیاتی تجزیہ بھی کرتا رہے۔
جب اکبر ایس بابر کو کیس واپس لینے پر آمادہ کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو کچھ عرصہ خاموشی رہی۔ پھر اکبر ایس بابر کو دھمکی آمیز کالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسلام آباد کے سیکٹر ای سیون میں واقع اکبر ایس بابر کے گھر کے باہر عموماً ایک پراسرار گاڑی کھڑی رہتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ اکثر رات دو بجے کے قریب نامعلوم گاڑی ہوائی فائرنگ کرکے چلی جاتی تھی۔ باقاعدہ کلاشنکوف کے برسٹ مارے جاتے تھے۔
ایسے واقعات متعدد بار ہوئے۔ ایک بار ایک موٹر سائیکل گھر کے مرکزی دروازے سے ٹکراکر چلی گئی۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے خطرناک واقعہ یہ ہوا کہ ایک روز اکبر ایس بابر اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ٹو میں کالج روڈ کے قریب سے گزر رہے تھے۔ یہ سنگل روڈ تھا ۔ اچانک گلی سی ایک گاڑی نکلی اور اکبر ایس بابر کی گاڑی کے بالکل سامنے آگئی۔ اکبر ایس بابر سمجھے کہ شاید ان کا آخری وقت آگیا ہے۔ انہوں نے اپنی گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھادی۔ یوں ان کی بچت ہوگئی۔ لیکن شاید اس طرح کے واقعات کا بنیادی مقصد جان لینا نہیں بلکہ اکبر ایس بابر کو ڈرانا دھمکانا اور ان کے اعصاب کو شل کرنے کے لئے تھا۔
کیونکہ بعد میں الیکشن کمیشن میں اس کیس کو ہی مینیج کر لیا گیا۔ جس کے بعد سوچا گیا کہ جب کیس ہی مینیج ہورہا ہے تو پھر اکبر ایس بابر کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھانا غیر ضروری ہوگا۔ ورنہ ایک بار اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کے ہی بعض رہنمائوں نے آگاہ کیا تھا کہ ان کی قتل کی سازش تیار کی گئی ہے۔ یہ پی ٹی آئی رہنما، اکبر ایس بابر سے قریب تھے۔ اس مبینہ قتل کی سازش کی تفصیلات اکبر ایس بابر اس وقت کی وزارت داخلہ، الیکشن کمیشن اور پولیس کے نوٹس میں بھی لائے تھے۔ اکبر ایس بابر کو دھمکیوں اور ڈرانے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک فیض حمید کا تبادلہ آئی ایس آئی سے بطور کور کمانڈر پشاور نہ ہوگیا۔
فارن فنڈنگ کیس سے اکبر ایس بابر کو دستبردار کرانے کے لئے صرف پرکشش آفرز اور ڈرانے دھمکانے کے حربے ہی استعمال نہیں کئے گئے بلکہ ان کے خلاف جھوٹے کیس بھی دائر کئے جاتے رہے۔ اس سلسلے میں ان پر تین مقدمات درج کئے گئے۔
ایک رات اکبر ایس بابر کو راولپنڈی کے ایک تھانے سے موبائل فون پر کال موصول ہوتی ہے کہ آپ کے خلاف ایف آئی آر کٹ گئی ہے۔ صبح آپ کو عدالت میں پیش ہونا ہے۔ ایف آئی آر کی کاپی واٹس ایپ کردی گئی۔ اکبر ایس بابر نے یہ کاپی اپنے وکیل کو بھیجی تو معلوم ہوا کہ ان پر کرمنل کیس بنایا گیا ہے۔ مقدمہ کرنے والا پی ٹی آئی راولپنڈی کا ایک مقامی عہدیدار تھا، جس نے اپنی ایف آئی آر میں کہا تھا کہ اکبر ایس بابر ہمارے پارٹی چیئرمین عمران خان کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے سبب میری اپنے محلے میں چند لوگوں سے بحث و تکرار ہوئی اور اس تکرار کے نتیجے میں لڑائی ہوگئی۔ مجھے چوٹیں آئیں اور اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس لڑائی کا ذمہ دار اکبر ایس بابر ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔ باقی دو مقدمات بھی کم و بیش اسی نوعیت کے تھے۔ تاہم یہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز مقدمات بعد ازاں عدالتوں میں جانے کے بعد اڑ گئے۔ اکبر ایس بابر کو بری کردیا گیا۔ تاہم اس سارے عمل میں ایک سے ڈیڑھ برس کا عرصہ لگا۔
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ بعد ازاں یہ سلسلہ پراسرار طور پر ختم ہوگیا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل فیض حمید نے قانونی طور پر اس کیس کو بری طرح مینیج کرلیا تھا۔ غالباً جس کے بعد اکبر ایس بابر پر حتمی وار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ کیونکہ اصل مسئلہ کیس کو کنٹرول کرنا تھا، جو پورا ہورہا تھا۔ ایسے میں اکبر ایس بابر کے خلاف کوئی حتمی کارروائی کرکے نیا کٹا کھولنا یقیناً فضول تھا۔ تین تین ماہ تک کیس کی سماعت نہیں ہوتی تھی۔
کیس کے حقائق کا تعین کرنے کے لئے مارچ دو ہزار اٹھارہ میں ایک اسکروٹنی کمیٹی بنائی گئی تھی، جسے ایک ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے پیش کرنی تھی۔ لیکن چار برس تک اسکروٹنی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی۔ فارن فنڈنگ کیس کے خلاف پی ٹی آئی نے تیرہ رٹ پٹیشن دائر کیں، تاکہ کیس مسلسل لٹکا رہے۔ ایک رٹ پٹیشن اوسطاً ڈیڑھ برس کھاگئی۔ حالانکہ کل ڈھائی دن کی سماعت کی ضرورت تھی۔ لیکن یہ تاریخ ہی نہیں پڑتی تھی۔
فارن فنڈنگ کیس میں تیزی دو ہزار بائیس کے اوائل میں آگئی تھی۔ جب جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ چھوڑ چکے تھے۔ ون پیج بھی پھٹ چکا تھا۔ اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی۔ آخر کار دو اگست دو ہزار بائیس کو الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنادیا، جس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی پر بیرون ملک سے ممنوعہ فنڈنگ لینا ثابت ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے دوہزار چودہ میں دائر کیا تھا، جو آٹھ برس تک الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا ہے۔ تحریک انصاف نے کبھی الیکشن کمیشن کے دائرہ سماعت کے اختیار کو چیلنج کیا اور کبھی الیکشن کمیشن کے کسی حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے اسٹے آرڈر حاصل کرلیا گیا۔
غرض یہ کہ تاخیری حربوں کا ایک طویل سلسلہ جاری تھا۔ آٹھ برس کے دوران کیس کی ایک سو سے زائد سماعتیں ہوئیں۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے احکامات کے خلاف مختلف اعلیٰ عدالتوں میں پینتیس کے قریب التوا کی درخواستیں دائر کیں۔ الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے چھیانوے سماعتیں کیں۔ تیرہ رٹ پٹیشن دائر کی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو اکائونٹس کا ریکارڈ جمع کرانے کے لئے اکیس نوٹسز جاری کئے۔ آخر کار دو اگست دو ہزار بائیس کو الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنادیا اور اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف پر بیرون ملک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوگئے ہیں۔ تاہم دو برس گزر جانے کے بعد بھی اس فیصلے کے بعد سزا کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔