بندوق کی نوک پر آن لائن فراڈ کرانے کے بعد اہلِ خانہ سے بھاری تاوان لے کر ہی رہا کرتے ہیں، فائل فوٹو
بندوق کی نوک پر آن لائن فراڈ کرانے کے بعد اہلِ خانہ سے بھاری تاوان لے کر ہی رہا کرتے ہیں، فائل فوٹو

روشن مستقبل کے متلاشی سیکڑوں نوجوان اندھیرے جنگلات میں قید

عمران خان :
پاکستانی نوجوانوں کی بے روزگاری اور بیرون ملک کام کرنے کی شدید خواہش کو عالمی انسانی اسمگلروں اور فراڈیوں کے نیٹ ورک نے بطورِ خاص اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو تھائی لینڈ میں ملازمت کے بہانے بلانے کے بعد انہیں ویت نام، کمبوڈیا اور لائوس سمیت دیگر ممالک میں اسمگل کردیا جاتا ہے۔ جہاں ان کو مزید فراڈ کی وارداتوں میں استعمال کرنے کے بعد مغوی بنا کر لاکھوں روپے کا تاوان بھی وصول کرلیا جاتا ہے۔ صرف 2023ء میں پاکستانی سفارتی حکام، تھائی لینڈ اور ویت نام کے حکام کی مدد سے 50 ایسے نوجوانوں کو بازیاب کرواچکے ہیں۔

اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو خصوصی معلومات موصول ہوئی ہیں کہ پاکستانی، تھائی لینڈ اور میانمار کے حکام کے درمیان ہونے والی خط و کتابت اور اجلاسوں انتہائی روح فرسا اور ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں یہ سنگین حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ پاکستان سے آئی ٹی کی تھوڑی بہت شدبد رکھنے والے بے روزگار نوجوانوں کو سہانے خواب دکھا کر تھائی لینڈ، کمبوڈیا، لائوس اور ویت نام کے جنگلوں میں مغوی بنا کر ان سے مزید شکار پھانسے جاتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو وزٹ ویزوں پر بلا کر پہلے آن فراڈ کروائے جاتے ہیں۔ بعد ازاں ان کو بھی مغوی بنا کر تاوان وصول کرلیا جاتا ہے۔

ذرائع کے بقول حالیہ دنوں میں تھائی لینڈ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے سنسنی خیز انکشافات پر مشتمل حساس معلومات کا وزارت خارجہ کے ذریعے وفاقی وزارت داخلہ کے ساتھ تبادلہ کیا گیا ہے۔ ان معلومات کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں تھائی لینڈ، میانمار اور کمبوڈیا وغیرہ میں سرگرم انسانی اسمگلروں اور اغوا کاروں کے بہت سے سب ایجنٹ سرگرم ہیں جو پاکستان میں ایسے بے روزگار نوجوانوں کو ہدف بنا کر لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں۔ یہ وہ تعلیم یافتہ نوجوان ہونے ہیں جو ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور بے روزگاری سے تنگ آکر ہر حال میں بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایسے نوجوان جو چینی اور انگریزی زبان کے ساتھ، کمپیوٹر، انٹر نیٹ، سوشل میڈیا، ای مارکیٹنگ، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی یا انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کسی بھی شاخ سے تھوڑا بہت واقف ہیں۔ ان نوجوانوں کو یہ ایجنٹ خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہیں ۔

اس طریقہ واردات میں یہ ایجنٹ 10 سے 15 لاکھ روپے کے عوض ان نوجوانوں کو تھائی لینڈ میں اچھی ملازمت کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں وزٹ یعنی تفریحی ویزے لے کر تھائی لینڈ بھجوا دیتے ہیں۔ اس دوران جن انسانی اسمگلروں کے کہنے پر انہیں بھجوایا جاتا ہے، ان کی نام نہاد کمپنیوں کے ساتھ ان نوجوانوں کی ملازمت کے جھوٹے معاہدے کئے جاتے ہیں جس میں انہیں پرکشش تنخواہ اور مراعات کا جھانسادیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق تھائی لینڈ پہنچنے کے بعد ان نوجوانوں کو یہ انسانی اسمگلر بڑے شہروں سے اپنی تحویل میں لے کر دور دراز کے مضافاتی علاقوں میں لے جاتے ہیں اور وہاں سے انہیں تھائی لینڈ اور ویت نام کے سرحدی علاقوں میں واقع گھنے اور پر پیچ جنگلوں میں قائم اڈوں میں عملاً یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ یہیں سے ان نوجوانوں کی اذیت ناک کہانی شروع ہوتی ہے۔ بہتر مستقبل کے خواب لے کر تھائی لینڈ پہنچنے والے ان افراد کو غیر قانونی طور پر ویت نام، کمبوڈیا اور لائوس سمیت دیگر ایسے ہی علاقوں کے خفیہ ٹھکانوں پر منتقل کرنے کے بعد انہیں کمپیوٹرز پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ ان افراد سے مزید دیگر پاکستانیوں اور ایسے ہی ممالک کے نوجوانوں کو بہتر مستقل کے خواب دکھا کر پھانسا جاتا ہے۔ یہ نوجوان تشدد کے خوف سے دیگر افراد کے ساتھ یہ فراڈ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ورنہ انہیں کبھی نہ رہا کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان نوجوانوں سے انسانی اسمگلر دل بھر کر آڈیو اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے آن لائن سائبر کرائمز کی وارداتیں کرواتے ہیں۔ اور جب ان کی کارکردگی زوال پذیر ہونے لگتی ہے تو ان کے اہل خانہ سے رابطہ کرکے ان نوجوانوں کی رہائی کے بدلے مزید لاکھوں روپے کا تاوان وصول کرلیا جاتا ہے۔ رقم نہ دینے والے افراد کے اہل خانہ کو ان پر تشدد کی آڈیو اور وڈیوز بھیجی جاتی ہیں اور فون پر ان کی درد بھری چیخیں سنائی جاتی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق یہ نیٹ ورک تھائی لینڈ اور پاکستان میں انسانی اسمگلروں اور ان کے سب ایجنٹوںکے درمیان 2022ء سے چلایا جا رہا ہے۔ جس میں اب تک تھائی لینڈ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے حکام کے سامنے بہت سے ایسے کیس سامنے آچکے ہیں۔ ان واقعات کے حوالے سے پاکستانی حکام کی جانب سے تھائی لینڈ کی وزارت داخلہ کے حکام سے بھی تفصیلی بات چیت کی گئی اور کچھ کیسوں کی تفصیلات کا تبادلہ بھی کیا گیا۔ جب ان کیسوں پر کام کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ایسے بہت سے گمشدہ نوجوان ویت نام کی حدود میں قائم جنگلوں میں موجود پائے گئے۔ جہاں قائم نام نہاد کمپنیوں میں ان کو ملازم کی حیثیت سے یرغمال بنا کر رکھا گیا۔

اس معاملے میں کی تحقیقات میں ویت نام کے حکام کی جانب سے تھائی لینڈ کے حکام کو آگاہ کیا گیا کہ جن پاکستانی افراد کی موجودگی ویت نام میں پائی گئی، وہ تھائی لینڈ کے ویزوں پر آئے تھے۔ تاہم ان کے ویت نام میں داخلے کا قانونی ریکارڈ ویت نام کے کسی سرحدی یافضائی راستے کے امیگریشن ریکارڈ میں موجود نہیں تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر تھائی لینڈ سے ویت نام میں اسمگل کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں حالیہ دنوں میں وفاقی وزارت داخلہ کے توسط سے مذکورہ معلومات ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل آفس کے ذریعے ایف آئی اے سندھ، بلوچستان، ایف آئی اے خیبر پختونخواہ اور ایف آئی اے اسلام آباد اور ایف آئی اے پنجاب کے زونل ڈائریکٹرز کے ساتھ شیئر کی گئیں ہیں۔ تاکہ اس نیٹ ورک کے جھانسے میں آکر اس طرح تھائی لینڈ جانے والے پاکستانی نوجوانوں کے حوالے سے ایئر پورٹس پر اقدامات کئے جاسکیں اور ساتھ ہی پاکستان میں سرگرم ان عالمی اغواکار اور انسانی اسمگلنگ مافیا کے سب ایجنٹوں کا سراغ لگا کر ان کو گرفتار کیا جاسکے۔

حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق صرف 2023ء میں پاکستانی سفارتی حکام تھائی لینڈ اور ویت نام کے ہنوئی میں موجود حکام کی مدد سے 50 ایسے نوجوانوں کو بازیاب کرواچکے ہیں۔ جنہیں کئی برسوں سے مغوی بنا کر ان سے سائبر کرائمز کی وارداتیں کروائی جا رہی تھیں۔ ان بازیاب ہونے والوں نوجوانوں میں سے اکثریت کا تعلق گلگت بلتستان سے معلوم ہوا ہے۔ جبکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جوکہ ہزاروں ڈالر کا تاوان بھر کر رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔