نیب نے اسکینڈل پر 93 گواہوں کی مدد سے بنائے ریفرنس میں پانچ برس میں صرف تین گواہ چلائے،فائل فوٹو
 نیب نے اسکینڈل پر 93 گواہوں کی مدد سے بنائے ریفرنس میں پانچ برس میں صرف تین گواہ چلائے،فائل فوٹو

بے نامی اکائونٹس کیس واپس ایف آئی اے کو مل گیا

عمران خان:
مشہور زمانہ زرداری انور مجید منی لانڈرنگ کیس المعروف بے نامی اکائونٹس کیس اپنے اندراج کے 10 برس بعد کچھوے کی چال چلتا ہوا ایک بار پھر نیب سے ایف آئی اے کو منتقل ہوگیا ہے۔ اس اسکینڈل کے مقدمات اور انکوائریوں کے ٹرائل کورٹ اور تحقیقاتی ایجنسی تیسری بار تبدیل ہوچکی ہے۔ حیرت انگیز حقائق یہ ہیں کہ نیب کے پاس اس کیس کی تفتیش گزشتہ 5 برس سے ہے۔ جہاں 93 گواہوں کی بنیاد پر ریفرنس عدالت میں داخل کیے گئے۔ لیکن اب تک صرف 3 گواہ چلائے جا سکے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق نیب ترامیم کے بعد دیگر کئی ریفرنسز اور انکوائریز کی طرح بے نامی اکائنٹس کیس بھی نیب عدالت نے نیب حکام کو واپس بھجوادیا تھا۔ تاکہ اسے متعلقہ فورم کی عدالتوں میں چلایا جا سکے۔ اس کے بعد سے کراچی کی لنک عدالت میں اس حوالے سے سماعتیں جاری تھیں۔ ان سماعتوں میں فریال تالپور اور حسین لوائی سمیت دیگر کئی نامزد ملزمان ابتدا میں پیش نہیں ہوئے۔

تاہم بعد ازاں ایف آئی اے کی جانب سے استدعا کی گئی کہ ریکارڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام متاثر ہو رہا ہے۔ گزشتہ سماعت پر عدالت کی جانب سے ملزمان کو پابند کیا گیا۔ جس پر فریال تالپور اور حسین لوائی پیش ہوئے۔ جبکہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کی جانب سے ان کے صدرارتی استثنیٰ کی درخواست دی گئی۔ تاہم اب تک عدالت نے اس درخواست کو قابل قبول ہونے کی کارروائی آگے نہیں بڑھائی۔جبکہ گزشتہ سماعت پر آصف علی زرداری کے وکیل بھی پیش نہ ہوسکے۔ اب اس درخواست پر فیصلہ اگلی سماعت میں متوقع ہے۔

اس ضمن میں کراچی کی لنک عدالت میں گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے نمائندہ کی جانب سے ایک بار پھر عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ گزشتہ ایک برس میں ایف آئی اے، نیب حکام کو متعدد مراسلے ارسال کرچکی ہے کہ بے نامی اکائونٹس کیس کی اصل فائلیں ایف آئی اے کے حوالے کی جائیں۔ تاکہ ایف آئی اے اپنے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن پروسس کے تحت اس پر کام شروع کرسکے۔ تاہم نیب حکام کی جانب سے مسلسل تاخیر کی جا رہی ہے اور ریکارڈ ایف آئی اے کے حوالے نہیں کیا جا رہا۔

ایف آئی اے نے یہ استدعا بھی کی کہ عدالت خود نیب حکام کو ریکارڈ ایف آئی اے کو دینے کی ہدایات جاری کرے۔ جس پر مذکورہ عدالت کی جانب سے نیب کیلئے تحریری ہدایت نامہ جاری کیا گیا اور ان کو ریکارڈ دینے کا پابند کر دیا گیا۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اس سماعت کے بعد ایف آئی اے کو نیب حکام کی جانب سے آگاہ کردیا گیا ہے کہ وہ کیس کا تمام مواد عدالت کے ذریعے ایف آئی اے کے سپرد کر رہے ہیں جس کے لئے ایف آئی اے اپنا ایک افسر مقرر کردے۔

اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے اسٹیٹ بینک سرکل کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اس کیس کا تحقیقاتی افسر نامزد کر دیا گیا ہے۔ جو اس وقت نیب حکام کے ساتھ کیس کی تمام فائلیں اور ریکارڈ لینے کیلئے رابطے میں ہیں۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگلی سماعت پر جو 10اکتوبر کو ہے، یہ ریکارڈ باقاعدہ ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا جائے گا۔ جس کے بعد ایف آئی اے اس پر کام شروع کرسکے گی۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کیس میں جو ریفرنس نیب نے بنائے ہیں۔ وہ آتے ہی ایف آئی اے کی عدالتوں میں انڈر ٹرائل ہوجائیں گے۔ جبکہ جو انکوائریاں ابھی ریفرنس نہیں بنیں۔ انہیں پہلے انکوائریوں میں ہی رکھ کر مزید تحقیقات کی جائیں گی۔ اس سے قبل ایف آئی اے اس پورے مواد کا جائزہ لے گی جو نیب کی جانب سے اس کیس کے سلسلے میں بطور وثبوت جمع کیا۔ یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ایف آئی اے کے قوانین کے تحت ان پر کتنے کیس بن سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ منی لانڈنگ کیس 2015ء میں پہلی بار اسٹیٹ بینک نے اس وقت اٹھایا جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ ان میں سے ایک ایس ٹی آر جو اے ون انٹر نیشنل نامی کمپنی کے بینک اکائونٹ کی تھی۔ اس میں اربوں روپے کی مشکوک ٹرانزکشنز کے ثبوت ملنے پر ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل میں باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمہ میں انور مجید سمیت متعدد گرفتاریاں ایف آئی اے کے تحت ہوئیں تھیں۔ بعد ازاں یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔ جس نے 24 دسمبر 2018ء کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔ تاہم معروف ناموں میں حسین لوائی، طلحہ رضا، انور مجید، عبدالغنی مجید، عبدالمجید، اسلم مسعود، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور اور دیگر شامل ہیں۔ جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔

اس کے بعد سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019ء کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے۔ جبکہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔ بعد ازاں 11 جون 2019ء کو نیب کی ٹیم نے آصف زرداری کو گرفتار کیا تھا۔ جبکہ 11 دسمبر 2019ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔ اسی کیس میں نیب نے 14 جون 2019ء کو فریال تالپورکو گرفتار کیا تھا۔ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کی تھی۔ جبکہ انور مجید کے صاحبزادے عبدالغنی مجید کو بھی طبی بنیاد پر ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔