اقبال اعوان :
کراچی کی ساحلی بستی ابراہیم حیدری، گٹکے ماوا کا گڑھ بن گئی۔ نشہ آور گٹکا اور ماوا شکار پر جانے والے ماہی گیر خریدتے ہیں، جبکہ اطراف کی آبادیوں اور ٹھٹھہ کی ساحلی آبادیوں میں بھی سپلائی کیا جارہا ہے۔ ابراہیم حیدری کے علاقے سید محلہ میں 40 سے زائد گھروں پر گٹکا اور ماوا تیار کیا جارہا ہے۔
ابراہیم حیدری پولیس کی ان کو مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ گٹکے اور ماوا کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹاسک فورس وہاں چھاپے مارنے سے گریز کرتی ہے کہ چھاپے کے دوران خواتین مزاحمت کرتی ہیں۔ اسی طرح دو لاکھ روپے بھتے سے تیاری شروع کی جاتی ہے اور ماہانہ ایک لاکھ روپے بھتہ ادا کیا جاتا ہے۔ ساحلی وڈیروں کی بھی ان کو آشیرباد مل رہی ہے۔ نشہ آور ماہی گیر گٹکا چھوٹا 15 گرام والا 50 روپے اور 25 گرام والے گٹکے کی پڑیا 100 روپے کی مل رہی ہے۔
مذکورہ ساحلی آبادی میں خواتین بھی گٹکا کھاتی ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی میں کینسر کے امراض میں اضافے کے بعد جب منہ، جبڑے، حلق، بڑی آنت، معدے، جگر، زبان سمیت دیگر اقسام کے کینسر کے کیس سامنے آنے لگے، اس دوران عدالت نے بھی اس پر پابندی لگائی تھی۔ اس دوران احکامات ملنے پر پولیس نے اس کے خلاف چھاپوں کا سلسلہ شروع کیا۔ تب معلوم ہوا کہ تھانوں کی سطح پر یہ کام سونے کی چڑیا کی حیثیت رکھتا ہے کہ بعض کرپٹ افسران و اہلکار خود اس کام سے وابستہ ہیں اور ہر ماہ زیادہ آمدنی تھانوں کی بھتے سے ہورہی ہے۔
بعض افسران و اہلکار خود بھی گٹکے، ماوے کے شوقین ہیں۔ شہر میں ٹاسک فورس اعلیٰ افسران نے بنائی تھی کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے گی۔ تاہم نیوکراچی، سرجانی سمیت بعض جگہوں پر ٹاسک فورس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر کی ساحلی آبادیوں میں ایک بار پھر گٹکے، ماوے کی تیاری، پیکنگ، سپلائی، فروخت کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔
بالخصوص ماہی گیر طبقہ اس گٹکے اور ماوے کی لت میں زیادہ مبتلا ہے۔ شہر کی ساحلی آبادیوں میں یہ صورت حال ہے کہ ابراہیم حیدری، چشمہ گوٹھ سے ریڑھی گوٹک تک بڑے، بچے، خواتین، گٹکا یا ماوا کھاتی ہیں۔ ابراہیم حیدری کا علاقہ چونکہ شہر سے دور ہے اور ساحلی آبادی ہے اس لیے یہاں پر دھڑلے سے گٹکے ماوے کا کام چل رہا ہے۔ ماہی گیروں کی ہزاروں میں تعداد دن رات سمندر میں شکار کے لیے جاتی ہے اور ان کی اکثریت گٹکا، ماوا کھاتی ہے۔ روزانہ اوسطاً دو سے تین پڑیا بڑی والی کھائی جاتی ہیں۔ اب شہر میں پابندی ظاہر کی جاتی ہے اور علاقہ پولیس سرپرستی کر کے فروخت کرا رہی ہے۔
اس طرح شہر میں سب سے زیادہ نشہ آور ماہی گیر گٹکا ماوا مہنگا ہوتا ہے کہ کتھے، چونے، چھالیہ، ذبح شدہ جانوروں کا خون، تمباکو کے علاوہ ہیروئن کیمیکل شامل کیا جاتا ہے۔ گٹکے والے کا کہنا ہے کہ گٹکے، ماوے کی تیاری، پیکنگ، سپلائی، فروخت کے حوالے سے ابراہیم حیدری پولیس کی اسپیشل پارٹی سیٹنگ کراتی ہے جبکہ ان کو پابند کیا گیا ہے کہ کوئی سیٹنگ کے بغیر یہ کام کرے تو اس کے خلاف فوری طور پر آگاہی کرنا ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ فروخت کرنے والے مرضی سے قیمت لگائیں۔ تاہم سپلائی والے نصف قیمت میں دیتے ہیں۔ شکار پر جانے والی لانچوں کے ماہی گیر سیکڑوں پڑیا شاپروں میں لے کر جاتے ہیں اور خرابی سے بچنے کے لیے برف روم میں رکھتے ہیں۔
ابراہیم حیدری کا سید محلہ جو سرکاری اسپتال سے ابراہیم حیدری کی مین سڑک تک پڑتا ہے۔ یہاں پر گھروں کے اندر تیاری کا عمل جاری ہے اور مچھلی والی سوزوکی، ڈاٹسن پر سپلائی کا کام کرتے ہیں۔ ابراہیم حیدری کے حوالے سے اگر پولیس کارروائی کرنا بھی چاہے تب مشکل ہے کہ چھاپوں کی صورت میں گٹکا، ماوا فروخت کرنے والی خواتین شدید مزاحمت کرتی ہیں۔
پولیس موبائل پر حملے، حراست میں لیے گئے افراد کو چھڑانے، پولیس پر پتھرائو، ڈنڈوں سے حملے کرتی ہیں۔ جبکہ گٹکے ماوے کے خلاف شہر کے وسطی علاقوں میں آپریشن کے حوالے سے خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ تاہم گٹکا ماوا چل رہا ہے۔ ماہی گیر نشہ آور گٹکا کبھی بدین، ٹھٹھہ کے ساحلی علاقوں سے آتا ہے آج کل ادھر سپلائی کیا جارہا ہے۔ چھالیہ وافر مقدار میں بلوچستان سے آنے والی لانچیں لے کر آتی ہیں۔