اقبال اعوان :
کراچی میں غیر معیاری سلنڈر پھٹنے کے پے در پے واقعات کے بعد انتظامیہ نے سلنڈر فروخت کرنے والی دکانوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا۔ جبکہ رہائشی علاقوں میں قائم دکانیں بند کرائی جانے لگیں۔ اور 170 سے زائد دکانیں سیل کی گئی ہیں۔
کارروائیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ایل پی جی فلنگ والوں نے دکانیں اپنے طور پر بند کر دیں۔ جبکہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناجائز منافع خور دکان داروں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔251 روپے فی کلو سرکاری قیمت کی جگہ 300 روپے فی کلو میں فروخت کی جارہی ہے۔ ایک جانب شہری شدید پریشان ہیں کہ بنیادی ضرورت ایل پی جی کی دکانیں بند ہیں اور دوسری جانب قیمت بڑھا دی گئی ہے۔ کراچی کے ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ اسحاقخان کا الزام ہے کہ سارا ڈرامہ بھتہ بڑھانے کا ہے۔ سیل کی گئی دکانیں خود انتظامیہ کی اجازت سے کھولی گئی تھیں۔ شہر میں 8 ہزار سے زائد فلنگ کی دکانیں ہیں۔ کاروبار کو سازش کے تحت ٹھپ کیا جارہا ہے۔ سپلائی کا کام نصف رہ گیا ہے۔ پریشانی چھوٹی گاڑی والوں، رہائشی افراد اور تندور والوں کو ہورہی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں ایل پی جی کے غیر معیاری سلنڈروں کے پھٹنے کے واقعات آئے روز ہورہے ہیں۔ جبکہ ایل پی جی فلنگ کی دکانیں رہائشی علاقوں میں کھولی جارہی ہیں۔ انتظامیہ کی اجازت اور پولیس کی سرپرستی ان کو حاصل تھی۔ حیدرآباد، بھٹ شاہ میں فلنگ دکانوں پر دھماکے سلنڈر دوران بھرائی پھٹنے سے ہوئے تھے جبکہ کراچی کی مچھر کالونی میں سلنڈر بھرائی کے دوران پھٹے تھے۔ آئے روز گھروں پر سلنڈر پھٹ رہے تھے۔ دراصل ناقص، غیر معیاری، زنگ آلودہ پرانے سلنڈر شیرشاہ کباڑی بازار سے خرید کر رنگ و روغن کر کے فلنگ والے دکانوں پر فروخت کر رہے تھے کہ آج کل مہنگائی کے مارے معاشی مسائل کا شکار شہری سستا دیکھ کر پرانے سلنڈر خرید رہے تھے کہ نیا کم از کم چھوٹا سلنڈر بھی 5 ہزار روپے سے زائد کا مل رہا ہے۔
شہر میں سلنڈر پھٹنے کے حادثات بڑھنے کے بعد اوگرا نے بار بار کراچی کی انتظامیہ کو ہدایات دی تھیں کہ رہائشی علاقوں میں فلنگ کی دکانوں اور غیر معیاری سلنڈر فروخت کرنے والوں کے خلاف فوری کریک ڈائون کیا جائے۔ اس طرح ایک ہفتے قبل کراچی کے تمام اضلاع میں انتظامیہ نے کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔ اب کراچی میں گیس بحران خاصا بڑھ گیا ہے۔ رات بھر اور دن میں مخصوص اوقات میں گیس جاتی ہے۔ رہائشی افراد زیادہ ایل پی جی استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح گیس کی قیمت خاصی بڑھنے اور بندش سے ستائے ہوٹل تندور، چائے والے، کھانے پینے کی اشیا کے ٹھیلے پتھارے والے ایل پی جی استعمال کررہے ہیں اس طرح سی این جی کی قیمت 3 سو روپے کلو ہونے پر چھوٹی گاڑیوں والے، رکشہ، ٹیکسی والے بلکہ چنگ چی رکشوں کا نیٹ ورک پورا تقریباً ایل پی جی پر چل رہا ہے۔
جونہی انتظامیہ نے کریک ڈائون شروع کیا فلنگ دکان والوں نے احتجاج کے طور پر دکانیں خود بھی بند کر دیں۔ اب لوگ سلنڈر اٹھائے گیس ڈلوانے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ چنگ چی اور چھوٹے رکشے والوں کا کام متاثر ہو گیا ہے۔ چند دکانیں جو کھلی ہیں۔ وہ فی کلو 50 روپے زائد وصول کررہی ہیں۔ شاہ فیصل کالونی، پاکستان چوک، سولجر بازار، لیاقت آباد، بلدیہ، گلستان جوہر، ملیر، لانڈھی، کورنگی، گلشن اقبال، کیماڑی، محمود آباد سمیت دیگر علاقوں میں ایل پی جی کی بیشتر دکانیں بند ہو چکی ہیں۔ انتظامیہ دکانیں سیل بھی کررہی ہے دکاندار پر جرمانہ اور مقدمات بھی درج کیے جارہے ہیں۔ کراچی میں ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ اسحاق خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کراچی کے شہریوں کے لیے ایل پی جی بنیادی ضرورت بن چکی ہے اور شہر میں اس کا کاروبار زوروں پر تھا کہ ان دکانوں پر کارروائی کی گئی جن کو انتظامیہ کی اجازت سے کھولا گیا۔
ایل پی جی کی دکانیں ہر علاقے میں ہیں اور عرصہ دراز سے بھی چلنے والی دکانوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس کاروبار کے لوگ تو بے روزگار ہوئے۔ تاہم شہری زیادہ پریشان ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ، ایسوسی ایشن کی چیکنگ کمیٹی خود دکانوں پر جاکر احتیاطی تدابیر چیک کرتی ہے ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ایک سازش کے تحت ان کا کاروبار ٹھپ کرایا جارہا ہے۔ انہوں نے انتظامیہ پر الزام لگایا کہ سارا بھتہ بڑھانے کا گیم ہے۔