نواز طاہر/ محمد قاسم:
پی ٹی آئی کے اپنے ہی ورکرز نے پندرہ اکتوبر کو احتجاج کی کال مسترد کردی ہے۔ ڈی چوک پہنچنے کا اعلان پارٹی ورکرز کے لیے گھبراہٹ اور بیزاری کا باعث بن گیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے اندرونی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب ہی نہیں، بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت والے صوبے خیبر پختونخواہ سے بھی کارکنان کی بڑی تعداد گھروں سے نکلنے پر آمادہ نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ نئے احتجاج سے قبل چار اکتوبر کو گرفتار ہونے والے کارکنان کی رہائی یقینی بنائی جائے۔
پارٹی قیادت سے نالاں کارکنان کا موقف ہے کہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر جذباتی کارکنان کو سوشل میڈیا پر اکسانے والے قائدین، ورکرز کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ ناراض پارٹی ورکرز کا سب سے زیادہ ہدفِ تنقید، عمر ایوب، شیخ وقاص اکرم، بیرسٹر گوہر سمیت میدان چھوڑ کر فرار ہونے والے علی امین گنڈاپور ہیں۔
دوسری جانب حکومت نے بھی اس شر انگیز احتجاج روکنے کے لیے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ایس سی او اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ جبکہ اس احتجاج کی کال پر عوامی سطح پر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی تجاویز آنی شروع ہوگئی ہیں۔ اسی طرح سیاسی اور سماجی حلقوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا کہ شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقاد میں روڑے اٹکانا کون سا سیاسی قابل ستائش عمل ہے؟ اور کیا یہ سیدھی ملک دشمنی نہیں؟
خود پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے کئی افراد کا کہنا تھا کہ یہ کال تو خود پی ٹی آئی کے خلاف سازش دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ اقدام حب الوطنی کے منافی ہے۔ اندرون لاہور کے ایک مباحثے گروپ میں یہ رائے سامنے آئی پی ٹی آئی کی طرف سے ایسے اعلانات اور عملی اقدامات سامنے آرہے ہیں جس سے اس جماعت پابندی لگانے کے اقدامات جائز ہونے چاہئیں۔ بحث میں حصہ لینے والے کچھ سیاسی کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگر شنگھائی تعاون کانفرنس کو روکنے کے لیے ڈی چوک کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے تو یہ اس جماعت پر پابندی لگانے کے لیے کافی ہوگا۔ کیونکہ یہ کانفرنس کسی سیاسی جماعت کا نہیں ملکی مفاد کا معاملہ ہے جسے روکنا ملک کے وقار اور خاص طور پر معیشت اور عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کی نفی ہے۔
ستر کی دھائی میں ایک سے زائد بار نظربند رہنے والے کارکن محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ’’جس وقت ہم احتجاج کرتے تھے وہ ریاست اور پاکستان کی اجتماعی سوچ کے خلاف نہیں ہوتا تھا۔ اب اگر پی ٹی آئی اپنی یہ کال واپس نہیں لیتی تو ریاستی اداروں کو اس پر سخت ترین کارروائی کرنا چاہیے اور پارلیمان کے ذریعے اس پارٹی پر پابندی لگانا چاہیے‘‘۔ وہاں موجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بتایا کہ اس کال پر کوئی نہیں نکلے گا۔
گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے ایک کارکن نے بتایا کہ ’’کل رات ہمیں منظم ہونے کے لیے کہا گیا تھا اور احتجاج کی کال ہونے پر بھی رابطہ کیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے انکار کر دیا اور یہ صورت حال صرف لاہور نہیں پنجاب کے باقی اضلاع کی بھی ہے۔ شیخوپورہ، قصور، ساہیوال، گجرات، منڈی بہائوالدین، بہاولنگر، وہاڑی، اوکاڑہ اور پاکپتن کے اضلاع کی بھی یہی اطلاعات ہیں‘‘۔
اسی بحث میں حصہ لیتے ہوئے سیاست سے کنارہ کش سابق سیاسی کارکن محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ’’بنیادی طور پر ایس سی او سے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکلنے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں اور دوست ممالک خطے میں پاکستان کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن بعض عالمی قوتیں اس کی مخالفت کرتے ہوئے سازشیں کررہی ہیں۔ ان سازشوں میں ایک طرف پی ٹی آئی کو استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ’’را‘‘ سمیت پاکستان دشمن طاقتوں کو دہشت گردی اور انارکی پیدا کرنے کے لیے متحرک کیا گیا ہے۔ اگر عمران خان اس کال کو واپس نہیں لیتے تو اس کا واضح پیغام یہ ہو گا کہ وہ ملک دشمنوں کے ساتھ کھڑے ان کا ایجنڈا پورا کررہے ہیں‘‘۔
مختلف ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان میں وارداتوں کے بعد پنجاب میں بدامنی پھیلانے اور دہشت گردی کی پلاننگ کی جارہی ہے اور اس میں سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اجتماع خاص ہدف ہو سکتے ہیں۔ اسی کی نشاندہی دفعہ 144 کے نفاذ کے نوٹیفکیشن میں بھی کی گئی ہے کہ یہ اجتماعات ملک دشمن اور دہشت گردوں کا سافٹ ٹارگٹ ہو سکتے ہیں۔ جبکہ مقامی ضلعی انتظامیہ سے ضلعی انٹیلی جنس کمپنیوں کی رپورٹوں کی روشنی میں دفعہ 144 لگانے کی درخواست کی ہے۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ زاہد بخاری نے بانی پی ٹی آئی کی کال کو خالصتاً ملک دشمن اقدام قرار دیتے ہوئے یاد دلایا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا ملک کے اہم ترین مواقع پر خاص طور پر انتشار پھیلانے اور ملکی ترقی کو نقصان پہنچانے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ اس ضمن میں جنوبی پنجاب اور سینٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو ارکان اسمبلی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عام حالات میں احتجاج پر بھی پٹائی ہوتی ہے تو اس کال پر، جبکہ اس کے حق میں کسی کے پاس دلائل بھی نہیں۔ کون باہر نکلے گا؟ پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ ’’ڈی چوک پر احتجاج کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایس سی او کے انعقاد کے موقع پر احتجاج کر کے عوام کے سامنے کون سے چہرے دکھانا مقصود ہے‘‘۔
ادھر خیبرپختون کے کارکنوں نے بھی مزید قربانی کا بکرا بننے سے انکار کرتے ہوئے جیلوں میں قید ورکرز کی رہائی کی شرط رکھ دی ہے۔ وزیراعلیٰ گنڈاپور سمیت پارٹی رہنمائوں کے احتجاج سے غائب ہونے پر کارکنان شدید ناراض ہیں۔ جبکہ والدین نے بھی اپنے بچوں کو تحریک انصاف کے احتجاج میں جانے سے منع کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں مرکز سے نچلی ترین سطح تک تمام تنظیمی ذمہ داران اور ذیلی تنظیموں کو ڈی چوک احتجاج کی تیاریوں کو حتمی شکل دینے کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔
سیاسی کمیٹی کے اعلامیہ میں الزام لگایا گیا کہ بانی پی ٹی آئی کی زندگی اور صحت کو جان بوجھ کر سنگین خطرات سے دوچار کرنے کیلئے ان کے تمام بنیادی و انسانی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں۔ سیاسی کمیٹی نے دھمکی دی کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی وکلا، ڈاکٹرز، اہل خانہ اور قائدین تک مکمل رسائی فی الفور بحال نہ کی تو بھرپور احتجاج کیلئے 15 اکتوبر کو پورا پاکستان نکلے گا۔ تاہم خیبرپختونخوا سے اس احتجاج کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی کال کی مخالفت کی ہے۔
علی محمد خان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’’میرا ذاتی موقف ہے کہ ایس سی او کے موقع پر احتجاج نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہمیں اسی طرح سے دیوار سے لگایا جائے گا تو پھر ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہوگا‘‘۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کے ورکرز نے بھی تحریک انصاف کے احتجا ج میں شرکت کرنے سے پہلے گرفتار کارکنوں کی رہائی کے مطالبات رکھ دیئے ہیں جو پنجاب کی جیلوں میں پڑے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرداخلہ سے صرف سرکاری اہلکاروں کی رہائی کیلئے بات کی گئی۔ جبکہ پی ٹی آئی قیادت نے کارکنان کو اس موقع پر بھلا دیا۔
تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ گنڈاپور سمیت تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں کی گزشتہ دنوں احتجاج سے خاموش واپسی پر کارکنان میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔ اور انہوں نے آئندہ کسی بھی پی ٹی آئی احتجاج میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اب ایک بار پھر پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے ایسے موقع پر اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے جب وفاقی دارالحکومت میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی قیادت بھی فی الحال خاموش ہے اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، امن جرگے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے بھی فی الحال اس احتجاج کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ جبکہ گرفتار ہونے والے کارکنوں نے والدین اب تک پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سے نالاں ہیں جس نے بروقت ان کے بچوں کی رہائی کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا اور ایک بار پھر احتجاج کی کال دے دی۔ ذرائع کے مطابق پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع سے تحریک انصاف کے متعدد کارکنان اس وقت گرفتار ہیں، جن میں ایسے کئی ورکرز بھی شامل ہیں جن کے گھروں کی کفالت کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔ ان کو بھی بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔