نواز طاہر:
پنجاب میں بھی تاوان کے لئے اغوا کی وارداتوں کا سلسلہ نہ رک سکا اور کچے کے ڈاکوؤں نے گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے سینیر رجسٹرار کو اغوا کرکے سندھ میں منتقل کردیا۔ مغوی کی بازیابی کیلئے سندھ حکومت اور پنجاب پولیس تاحال کوئی پیشرفت نہیں کر سکیں۔ بلکہ ایک کارروائی کے دوران ملزمان کے گنے کی فصل میں چھپ جانے پر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گئی۔
پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خالد محمود اتوار کو گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں ڈیوٹی کیلئے واپس جاتے ہوئے لاپتا ہوگئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں پنجاب کی حدود میں اقبال آباد انٹر چینج کے قریب سے اغوا کیا گیا۔ اس کا انکشاف ان کے گھر والوں سے تاوان طلب کرنے سے ہوا۔ گھر والوں کو ٹیلی فون پر رابطہ کر کے رہائی کے بدلے ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان ادا کرنے کی دھمکی دی گئی۔
اغوا کی اس واردات پر خانپور اور رحیم یار خان کے ڈاکٹروں نے احتجاج شروع کر دیا، جو پیر کو وقتی طور پر موقوف کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود کے اغوا برائے تاوان کا معاملہ پنجاب اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا اور پولیس کے بارے میں تحفظات دہرائے گئے۔ مگر اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باعث اس پر بات نہ ہو سکی اور نہ ہی حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی جواب دیا گیا۔
اس دوران خان پور اور رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب میں ڈاکٹر خالد محمود کے اغوا پر احتجاج جاری تھا اور ان کی رہائی کیلئے حکومت سے اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر خالد محمود کو اغوا کرنے والوں اور ورثا میں رابطہ ہوا۔ جس میں تاوان کی ادائیگی کیلئے کچھ معاملات بھی طے ہوئے۔ مگر ان پر عمل درآمد ادھورا رہ گیا۔ اس رابطے کے تحت طرفین کی طرف سے ظاہر پیر کے علاقے میں ایک ڈھابے پر ملاقات طے پائی تھی۔ جہاں دونوں پارٹیاں ابھی اکٹھی نہیں ہوئی تھیں کہ پولیس پہنچ گئی اور سہولت کار فرار ہو گئے۔
ذرائع کے مطابق سہولت کاروں کا پہلا دستہ ایک گاڑی میں ڈھابے پر پہنچا۔ جبکہ دوسرے فریق نے ابھی پہنچنا تھا کہ اسی دوران پولیس کو اطلاع ملی کہ کچھ مشکوک افراد بیٹھے ہیں۔ پولیس ان افراد کی طرف جا رہی تھی تو پولیس کی گاڑی آتا دیکھ کر وہ افراد اپنی گاڑی بھگا لے گئے۔ جس کا تعاقب کرنے والی پولیس کی گاڑی ان کو نہ پکڑ سکی اور وہ کچے کے راستے پر اتر گئے۔ اسی دوران ملزمان کی گاڑی ایک گڑھے میں جا گری۔ لیکن وہ گاڑی سے نکل کر گنے کی فصل میں گھس گئے۔
پولیس نے ان کی یہ گاڑی تو قبضے میں لے لی۔ لیکن ان کا گنے کی فصل میں نہ تعاقب کیا اور نہ ہی ان کے گرد گھیرا ڈالا۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ ان کے پاس بھاری اسلحہ ہو سکتا ہے، پولیس خوفزدہ ہوکر واپس لوٹ ائی۔ اس طرح یہ ڈیل ادھوری رہ گئی۔ جب اس ضمن میں ظاہر پیر پولیس سے رابطہ کیا گیا تو وہاں سے اس کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا گیا۔
البتہ دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق ہو گئی اور مغوی ڈاکٹر خالد محمود کے بھائی قیصر محمود نے بھی تصدیق کی کہ ملزموں کی گاڑی پولیس کے قبضے میں ہے۔ تاہم انہوں نے ڈاکوؤں سے طے پانے والے معاملات کے بارے میں بات چیت سے گریز کیا۔ اس کی وجہ ڈاکٹر خالد کی زندگی کو ممکنہ خطرہ بتایا گیا ہے۔ ذرائع کا خیال ہے کہ وہ ڈاکوئوں کے سہولت کار سردار گڑھ کی طرح کچے علاقے میں فرار ہوئے۔ ضلع راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیانی علاقے میں ڈاکوؤں کے متعدد سہولت کار موجود ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
اس ضمن میں پنجاب اسمبلی کے رکن ڈاکٹر فیصل جمیل کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر خالد ملک محمود کے معاملے میں پولیس کوئی پیش رفت نہیں کر پا رہی اور پولیس کا کردار بھی مشکوک سمجھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسیی ایشن رحیم یار خان کے صدر ڈاکٹر اشتیاق بھٹی نے بتایا کہ ’’ہم نے جس قدر ہو سکتا تھا احتجاج کیا اور ڈاکٹر خالد محمود کے بازیابی کیلئے مطالبہ کیا۔ لیکن یہ احتجاج ڈاکٹر خالد محمود کے ورثا کے کہنے پر پیر کو موقوف کر دیا ہے۔ کیونکہ ان کی پولیس اور مبینہ سہولت کاروں سے شاید گفتگو چل رہی ہے اور ہو سکتا ہے کوئی پیشرفت ہوئی ہو‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کا پی ایم اے سندھ سے اس ضمن میں رابطہ نہیں ہوا۔ لیکن اس معاملے پر ڈاکٹروں کے احتجاج کی اطلاع ضرور ملی ہے۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد محمود کے بھائی قیصر محمود نے بتایا کہ ڈاکٹر خالد محمود کے اغوا برائے تاوان پر گمبٹ کے ڈاکٹروں نے مذمت اور تشویش کا اظہار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ رہائی کیلئے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔ تاہم انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انسٹیٹیوٹ کی انتظامیہ نے حکومت سے رابطہ کیا۔ لیکن انسٹیٹیوٹ اور سندھ پولیس کی طرف سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
جبکہ خانپور سے موصول ہونے والے اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر خالد محمود کو سندھ کے علاقے کشمور میں رکھے جانے کی ابتدائی طور پر تصدیق ہوئی ہے۔ کیونکہ جب ٹیلی فون کر کے لواحقین سے رابطہ کیا گیا تھا اور تاوان کا مطالبہ کیا گیا تھا تو اس ٹیلی فون کے استعمال کی جگہ کشمور کی ایک گوٹھ ٹریس ہوئی تھی۔ لیکن اس کے بعد کوئی ٹھوس اطلاع نہیں کہ ڈاکٹر خالد محمود کو کہاں رکھا گیا ہے اور کیفیت کیا ہے۔
اس کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد محمود کے بھائی قیصر محمود کا کہنا ہے کہ گمبٹ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس کی طرف سے بھی وہاں کے اہم ادارے کے سینئر رجسٹرار کے اغوا پر سندھ حکومت نے کیا اقدامات کیے ہیں یا انسٹیٹیوٹ نے کیا اقدامات کیے ہیں، انہیں کچھ معلوم نہیں۔ البتہ ان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر رحیم یار خان سے رابطے ہیں اور دو تین بار ملاقات بھی ہوئی ہے۔
انہیں بتایا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ سے کچے کے علاقے سے کچھ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ گرفتاریاں پنجاب کے علاوہ سندھ سے بھی کی گئی ہیں۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی ڈاکوؤں کے ساتھ ڈیل کے معاملات چل رہے ہیں اور ملزموں کی گرفتاری کی اطلاعات مبہم ہیں۔ چونکہ ماضی میں بھی ایسی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں اور اب تک ہونے والی تمام رہائیاں ڈیل کے نتیجے میں ہی ہوئی ہیں۔ جس میں پولیس اور سہولت کار کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔