فائل فوٹو
فائل فوٹو

نومبر کے بعد بھی عمران خان کی رہائی کا امکان نہیں

امت رپورٹ :
عمران خان کی رہائی کے لیے اگر امریکہ اور برطانیہ کے سارے ارکان پارلیمنٹ خود کشی کی دھمکی بھی دیدیں تو تب بھی ان کی مراد بر نہیں آئے گی۔ یہ ہے اس فیصلے کا خلاصہ جو ریاست کیے بیٹھی ہے۔ نومبر کے بعد بھی قیدی نمبر آٹھ سو چار کی رہائی کا امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس عمران خان کے خلاف سانحہ 9 مئی کی تحقیقات میں تیزی دیکھنے میں آسکتی ہے۔

اہم ذرائع کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کے مٹھی بھر ارکان کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے متعلق اپنی حکومتوں کو لکھے جانے والے خطوط کو جوتی کی نوک پر رکھا گیا ہے۔ ویسے بھی پاکستانی حکومت کے نزدیک ایسے خطوط کی رتی بھر اہمیت نہیں کہ سزایافتہ مجرم کی رہائی کے لیے امریکہ، برطانیہ یا کسی اور ملک کی جانب سے حکومتی سطح پر اب تک ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق اس حوالے سے پہلے ہی امریکہ اور یورپ کے ممالک کو سفارتی سطح پر آگاہ کیا جاچکا ہے کہ عمران خان کی سزائیں اور جیل عدالتوں کے فیصلے اور پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان کے اس موقف کو امریکہ اور برطانیہ سمیت سب نے تسلیم بھی کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ارکان کانگریس کا خط ہو یا یا کوئی قرار داد، امریکی حکومت نے اس سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر کبھی ان ممالک کی جانب سے حکومتی سطح پر ایسا کوئی مطالبہ آتا بھی ہے تو اسی زبان میں اس کا جواب دیا جائے گا۔

ذرائع نے زور دے کر کہا کہ 9 مئی کے حملوں پر قوم سے بلامشروط معافی ہی عمران خان کی رہائی کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بیرون ملک بیٹھ کر پیسے کے زور اور ملک دشمن عناصر کو استعمال کرکے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرلے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اب تک جن مٹھی بھر امریکی اور برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ نے عمران خان کی رہائی کے لیے بظاہر آواز اٹھائی ہے اس کے پیچھے پی ٹی آئی اوورسیز کا بے بہا پیسہ اور اس کے ذریعے ہائر کی گئی لابنگ فرموں کا کردار ہے۔ جس سے متعلقہ ممالک کی حکومتوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔ لابنگ فرمیں اور ارکان چند خطوط اور قراردادوں کے بدلے اپنے پیسے کھرے کرلیتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ اگر پیسوں کی خاطر اور پاکستان دشنمی میں امریکی اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے خطوط لکھنے اور بے مقصد قراردادیں لانے کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ خارج از امکان نہیں کہ جواب آں غزل کے طور پر پاکستانی ارکان پارلیمنٹ بھی امریکی اور برطانوی حکومتوں سے کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والوں اور لندن فسادات کے مجرمان کی سزائیں معاف کرنے کا مطالبہ کر دیں۔

ایک امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ سابق پاکستانی عہدیدار کے مطابق امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں اس بات کو سمجھتی ہیں کہ 9 مئی کا معاملہ ریاست کے لئے کس قدر حساس ہے اور وہ کبھی بھی کسی فرد واحد کے لیے پاکستان کو ناراض نہیں کریں گی، وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب مشرق وسطیٰ کا بحران بڑھتا جارہا ہے اور ایران اور اسرائیل براہ راست ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔

اس سابق عہدے دار کے بقول پی ٹی آئی اور خاص طور پر اس کا اوورسیز چیپٹر اب بھی یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ نومبر میں صدارتی انتخابات جیت کر جیسے ہی ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ اپنا پہلا حکم پاکستان کو یہی دیں گے کہ عمران خان کو رہا کردیا جائے۔ اول تو ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلا امریکی صدر کون ہوگا؟ کملا ہیرس اور ٹرمپ میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ اب تک کہ تمام انتخابی سرویز کے مطابق دونوں کی جیت کے ففٹی ففٹی پرسنٹ امکانات ہیں۔

عہدے دار کے بقول بالفرض اگر ٹرمپ دوبارہ صدر بن بھی جاتے ہیں تو یہ ضمانت کس نے پی ٹی آئی کو دی ہے کہ وہ ذمہ داری سنبھالتے ہی حکومت پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے؟ عمران خان کی رہائی پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے تو مسئلہ اول ہو سکتی ہے، نو منتخب امریکی صدر کے لیے نہیں۔ جو بھی اگلا امریکی صدر ہوگا اسے پہاڑ جیسے اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا ہوگا جس میں ملک میں بڑھتی افراط زر اور بیروزگاری پر قابو پانا۔ گرتی ہوئی درآمدات میں اضافہ کرنا۔ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن۔ جبکہ خارجہ پالیسی میں نومنتخب امریکی صدر کو سب سے پہلے جس مسئلے پر توجہ دینی ہوگی وہ مشرق وسطیٰ میں لگی آگ ہے۔

اسی طرح نو منتخب صدر کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ یوکرین کی مدد جاری رکھی جائے یا نہیں۔ بائیڈن یوکرین کی مدد کے پرجوش حامی ہیں، جب کہ ٹرمپ یوکرین کے لیے امریکی امداد روکنے کے خواہش مند ہیں۔ تھنک ٹینک کے سابق عہدے دار کے مطابق نومبر کے انتخابات میں کامیاب ہوکر آنے والے امریکی صدر کا پہلا سال اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے میں گزرے گا۔ عمران خان کی رہائی اس کی ترجیحات میں شامل ہونا مضحکہ خیز سوچ ہے۔

اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ٹرمپ دوبارہ صدر بن جاتے ہیں اور عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہیں تو کیا ریاست اس دباؤ کے آگے ڈھیر ہو جائے گی؟ جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ عمران خان کا معاملہ سیاسی نہیں بلکہ 9 مئی سے جڑا ہے جسے ریاست ملکی سلامتی پر حملہ تصور کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے غدار وطن شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے حددرجہ امریکی دباؤ کو آج تک خاطر میں نہیں لایا گیا ہے۔ حالانکہ عمران کی رہائی کے لئے تو انفرادی طور پر مٹھی بھر ارکان کانگریس آواز اٹھا رہے ہیں۔

شکیل آفریدی کے لیے تو امریکہ نے حکومتی سطح پر دباؤ برقرار رکھا ہوا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملے پر ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ایک ہیں۔ لیکن برسوں سے جاری اس دباؤ کو پاکستان خاطر میں نہیں لایا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی انتخابی صدارتی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر بنتے ہی سب سے پہلا کام شکیل آفریدی کی رہائی کا کرے گا۔ یہ حسرت لیے وہ چلا گیا اور پھر بائیڈن بھی یہی عزائم لے کر آیا لیکن وہ بھی یہ خواہش دل میں لئے جارہا ہے۔ اس ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بھی پی ٹی آئی اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ چند ارکان کانگریس کے خط لکھنے سے جیل کی سلاخیں ٹوٹ جائیں گی یا ٹرمپ دوبارہ صدر بن کر اسپائیڈر مین کی طرح قیدی نمبر آٹھ سو چار کو اڈیالہ سے نکال کر لے جائے گا۔