عمران خان:
ملکی درسگاہوں میں بڑھتے ہوئے منشیات کے استعما ل کو روکنے کو قومی ترجیحی پالیسی میں شامل کرلیا گیا۔ اس ضمن میں اینٹی نارکوٹیکس فورس کو ملک گیر کارروائیوں کے لئے اہم ٹاسک دیا گیا ہے جس کے لیے تمام بڑے شہروں میں اے این ایف کی خصوصی انٹیلی جنس اور آپریشن کی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں ۔
گزشتہ 6 ماہ کے دوران ان ٹیموں نے ملک بھر کے درجنوں تعلیمی اداروں بشمول بڑی نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آئس ،کرسٹل ، میتھ اور ہیروئن سپلائی کرنے والے درجنوں ڈیلرز اور سپلائرز کو گرفتار کیا ہے جن سے تحقیقات میں سنسنی خیز حقائق سامنے آئے ہیں ۔
اہم ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ عرصہ میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے طلبا اور طالبات میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے رجحانات کے حوالے سے متعدد انٹیلی جنس رپورٹس وفاقی حکومت کو موصول ہوئیں ۔ ان رپورٹوں میں ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا کہ یہ رجحان ملک کے اس نوجوان طبقے میں بڑھنا ملک کے مستقبل اور سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے کہ جس نے آگے جا کر ملک کی باگ دوڑ سمبھالنی ہے ۔
ایسی رپورٹس کے ساتھ ہی پوش علاقوں میں رہائش پذیر سیاستدانوں ، بیورو کریٹس ، بڑے صنعتکاروں کے گھروں میں بھی ایسے واقعات پیش آنے شروع ہوئے جن میں ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے منشیات کے زیر اثر مختلف جرائم میں پائے گئے ۔ ایسے واقعات میں انہوں نے جانی اور مالی نقصانات بھی کئے ۔ اس تمام صورتحال کے تناظر میں وفاقی حکومت اور مقتدرہ حلقوں کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرکے طلبا اور طالبات تک منشیات کی آسان رسائی کو مشکل بنایا جائے ۔ ساتھ ہی منشیات کے مضر اثرات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی آگاہی مہم کا ایک مستقل سلسلہ شرو ع کیا جائے ۔
ذرائع کے بقول اسی عرصہ میں اس حوالے سے اینٹی نارکوٹکس فورس کو اہم ذمے داریاں سونپی گئی ہیں ۔ یہ ایک منشیات کے خاتمے کا ذمے دار وفاقی ادارہ ہے جس کے سربراہی حاضر سروس افسران سنبھالتے ہیں اور ان کا تعلق پاک آرمی سے ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تحت ایک خاص پالیسی اور ڈسپلن کے ذریعے ملک گیر آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنایا جا رہا ہے ۔
ذرائع کے بقول اس اہم ٹاسک کو پورا کرنے کے لئے کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ،روالپنڈی ،پشاور اور کوئٹہ سمیت مختلف بڑے شہروں میں خصوصی اے این ایف انٹیلی جنس اینڈ آپریشن ٹیمیں قائم کی گئی ہیں ۔ اس مقصد کے لئے تعلیمی اداروں سے خفیہ معلومات کے حصول کے لئے انٹیلی جنس سیٹ اپ بھی پلانٹ کئے گئے ہیں۔
ذرائع کے بقول انٹیلی جنس سیٹ اپ نے 6 ماہ قبل اپنا کام شروع کیا جس میں خاص طور پر تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والے نیٹ ورکس کا سراغ لگانا شروع کیا گیا ۔ اس ضمن میں پولیس ،اسپیشل برانچ ، ایکسائز پولیس اور دیگر ایسے اداروں نے بھی معلومات جمع کی گئی ۔ مختلف اداروں کے تحت رواں عرصہ میں گرفتار ہونے والے منشیات فروشوں کا ریکارڈ بھی جمع کیا گیا جس میں ان کی کرمنل ہسٹری کے ساتھ ان کے کاروبار کے علاقوں کا تعین بھی کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق اس ضمن میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے عادی ہوجانے والے طلبا اور طالبات کے کوائف بھی جمع کئے گئے تاکہ ان کے ذریعے ان کو منشیات سپلائی کرنے والے کارندوں تک پہنچا جاسکے اور ان کا رندوں کے ذریعے مرکزی سپلائرز اورڈیلرز کا سراغ لگایا جاسکے ۔ ان ٹیموں کو ٹیلی کمیونیکشن کے ذریعے ملزمان کا سراغ لگانے کے لئے وسائل بھی فراہم کئے گئے ہیں تاکہ فوری طور پر کال ڈیٹا اور لوکیشن کے ذریعے ملزمان کا سراغ لگایا جاسکے۔
ذرائع کے بقول پہلے تین ماہ کی معلومات اور ٹریسنگ کے بعد انٹیلی جنس ٹیموں کی رپورٹوں کی روشنی میں اے این ایف کی آپریشن ٹیموں نے اپنا کام شروع کیا ۔ اطلاعات کے مطابق اب تک کراچی ،اسلام آباد ،روالپنڈی ،لاہور ،کوئٹہ اور پشاور سمیت مختلف شہروں سے درجنوں بڑے ڈیلرز کو چھوٹے سپلائرز اور کارندوں کی نشاندہی پر گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ ان ملزمان سے تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت تعلیمی اداروں میں میتھ ، کرسٹل اور آئس کی منشیات سب سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہے ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ منشیات ہیروئن سے زیادہ فروخت ہو رہی ہے کیونکہ یہ منشیات استعمال کرنے والے ایک سے ڈیڑھ دن تک اس کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان میں عام حالت سے زیادہ مستعدی آجاتی ہے۔ تاہم اس کے مستقل استعمال سے متاثرہ افراد ذہنی اور جسمانی طور پر ہیروئن اور چرس کے استعمال سے زیادہ متاثرہو رہے ہیں ۔
ذرائع کے بقول اے این ایف کی ان کارروائیوں کی ہفتہ واری رپورٹس وفاقی حکومت کو ارسال کی جا رہی ہے جبکہ مقتدرہ ادارے بھی ان رپورٹوں میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ وقت کے ساتھ ان کو مزید موثر بنانے کے لئے اقدامات کئے جاسکیں ۔اس کے لئے مذکورہ ٹیموں سے سفارشات بھی لی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں مزید ایسے کون سے اقدامات کے جاسکتے ہیں۔