محمد نعمان:
سندھ حکومت نے کراچی میں برساتی نالوں پر واقع دکانیں اور مکانات منہدم کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس کی ابتدا ضلع وسطی سے کی جارہی ہے۔ جس میں نیو کراچی 7000 روڈ میں واقع قدیم مارکیٹ بھی شامل ہے۔ اس نالے پر واقع مارکیٹ میں ایک ہزار سے زائد دکانیں اور52 مکانات کم از کم 40 سال پرانے ہیں۔ یہ کارروائی دوبارہ آنے والے ڈپٹی کمشنر سینٹرل طہ سلیم کی نگرانی میں کی جارہی ہے۔ اس سے قبل مجاہد کالونی میں ہزاروں مکانات مسمار کیے گئے تھے۔ نیو کراچی 7000 روڈ کے برساتی نالے پر واقع قدیم مارکیٹ میں آپریشن کیلئے پولیس اور رینجرز کی بھی مدد طلب کی جائے گی۔ آپریشن سے قبل دکانداروں کو انتباہ جاری کردیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق 1990ء میں نیو کراچی 7000 روڈ کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تھا۔ سڑک کی تعمیر کے دوران یہاں بیٹھے افراد نے اپنا سامان اٹھا کر برساتی نالے کے اطراف رکھ دیا اور یہیں بیٹھ کر کاروبار کرنے لگے۔ برساتی نالے پر بننے والی عارضی دکانیں موٹر سائیکل مکینکس کی تھیں۔ کچھ ماہ بعد یہاں دیگر افراد نے بھی اپنا کاروبار کرنا شروع کردیا۔ تاہم کچھ برسوں بعد یہاں پکی مارکیٹ بننا شروع ہوگئی۔ متحدہ کے دور میں یہاں باقاعدہ نئی دکانیں تعمیر ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اور آہستہ آہستہ برساتی نالے پر 11 سو سے زائد دکانیں تعمیر کردی گئیں۔
7000 برساتی روڈ نالے پر دکانیں تعمیر کرنے والوں نے یہاں مکانات بھی بنانا شروع کردیئے اور کچھ عرصہ بعد یہاں مسجد بھی تعمیر کردی گئی۔ نیو کراچی برساتی نالے پر دکانیں اور مکانات قائم ہونے سے یہاں نکاسی کا نظام بری طرح متاثر ہوگیا۔ بارشوں میں نیو کراچی اور ناگن کے علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ 7000 روڈ کے برساتی نالے پر تجاوزات ہیں۔ حال ہی میں یہاں نئی دکانیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جو موٹر سائیکل مکینکس، موٹر سائیکل اسپیئر پارٹس، ویلڈنگ اور دیگر دکانیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان دکانوں کی تعمیر میں ضلعی انتظامیہ اور کے ایم سی ملوث رہی ہے۔ جو مسمار کرنے کے بجائے یہاں سے مال بٹورتی رہی۔ ان دکانداروں سے کے ایم سی اور کالعدم ڈی ایم سی کا عملہ بھی لاکھوں روپے وصول کرچکا ہے۔ کبھی جعلی چالان تو کبھی مسماری آپریشن کی دھمکی دے کر دکانداروں سے پیسے بٹورے گئے۔
’’امت‘‘ کو سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ عمار خان نے بتایا کہ تجاوزات کیخلاف آپریشن ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں کیا جائے گا۔ یہاں کے ایم سی کو مدد کیلئے بلایا گیا ہے۔ اس حوالے سے اجلاس بھی منعقد کیے گئے تھے۔ جس کے بعد دکانداروں کو نوٹس دیئے گئے۔ نوٹس میں 7 دن کا وقت دیا گیا تھا جو مکمل ہوچکا ہے۔ لیکن دکانیں اب تک خالی نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی اور سندھ حکومت کے احکامات کے بعد ہم نالوں پر رہائش پذیر اور کاروبار کرنے والوں کو منتبہ کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد تجاوزات ختم کردیں۔ بصورت دیگر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
’’امت‘‘ کو چیئرمین انجمن تاجران ڈسٹرکٹ سینٹرل کے محمد حسین قریشی نے بتایا کہ 40 سالہ پرانی مارکیٹ غیر قانونی کہہ کر مسمار کی جارہی ہے۔ اس سے قبل بھی ضلع وسطی میں کئی مکانات اور دکانیں غیر قانونی منہدم کردی گئی تھیں۔ اس کے بعد ہزاروں لوگ بے روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ بے گھر ہوگئے۔ ہم نے اس مارکیٹ کا رخ کیا۔ یہاں پرانے لوگ ہیں۔ جو یہ سن کر پریشان ہیں کہ یہ مارکیٹ ختم کی جارہی ہے۔ 11 سو دکانیں مسمار ہونا ایک المیہ ہے۔ اس پر حکومت سندھ کو سوچنا چاہے۔ سندھ حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک ان دکانداروں کیلئے متبادل انتظام نہیں ہوجاتا۔ اس وقت تک یہ آپریشن ملتوی کیا جائے۔
یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ آپریشن سے قبل کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس حوالے سے میئر کراچی، ڈپٹی میئر اور ڈپٹی کمشنر سینٹرل سے ملاقات کریں گے اور ان سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ آپریشن فی الحال ملتوی کریں۔ ہم متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ جب بولیں گے۔ احتجاج کیلئے تیار ہوجائیں گے۔اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر نیو کراچی ارسلان طارق سے رابطے کیا گیا۔ لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔