کسٹمز انٹیلی جنس کے دفاتر بند ہونے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے، فائل فوٹو
کسٹمز انٹیلی جنس کے دفاتر بند ہونے سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو رہی ہے، فائل فوٹو

عاجلانہ اقدام ’’فیٹف‘‘ شرائط کیلئے خطرہ

عمران خان :
وفاقی وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی جانب سے عجلت میں کئے جانے والے بعض اقدامات کے بعد پاکستان کی ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کی برسوں کی محنت خطرے میں ڈال دی گئی۔ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترمیم کئے بغیر کسٹمز انٹیلی جنس کے تحت مذکورہ کیسوں پر روک دیا گیا ۔جس سے پاکستان اور ایف اے ٹی ایف کے مابین شرائط کی تکمیل پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی پاکستان کے ساتھ شرائط کا اگلا جائزہ 2026 کے آغاز میں لیا جائے گا۔

امت کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وزارت خزانہ اور ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں موجود بعض جلد بازوں کی نااہلی کی وجہ سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے پاکستانی اداروں کی جانب سے کی جانے والی برسوں کی محنت کو خطرے میں ڈال دیا گیا ۔ایف بی آر چیئرمین آفس کے ایک حالیہ مراسلے کے بعداینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترمیم کئے بغیر ہی ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے تمام زونل دفاتر میں اینٹی منی لانڈرنگ کے مقدمات اور انکوائریوں پر کام روک دیا گیا ۔جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعہ (XVIII)میں درج ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ کے مقدمات پر تحقیقات ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز انٹیلی جنس کرے گی ۔قانون میں موجود دفعہ کو بغیر ترمیم کے کسی بھی محکمہ جاتی ایس آر او یا آفس آرڈر کے ذریعے بائی پاس نہیں کیا جاسکتا ۔

موصول دستاویزات کے مطابق گزشتہ ہفتے ایف بی آر میں اصلاحات کے سلسلے میں ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں اسلام آباد کسٹمز انٹیلی جنس کو بڑے اسٹنگ آپریشنز ( خفیہ کارروائیوں ) کا ٹاسک دے کر عمومی انسداد اسمگلنگ کی کارروائیوں کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ ابتدائی طور پر کسٹمز انٹیلی جنس کے راولپنڈی، گوادر، ملتان اور حیدراباد کے ڈائریکٹوریٹ بند کردیئے گئے۔ ایف بی آر کے تحت کسٹمز اصلاحات کے سلسلے میں کسٹمز انٹیلی جنس کے ملک بھر میں موجود مسروقہ سامان کے گودام کسٹمز انفورسمنٹ کے سپرد کردیئے گئے۔

مراسلے کے مطابق ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں چیئرمین ایف بی آر کی صدارت میں آج ہونے والی میٹنگ کے بعد دو صفحات پر مشتمل مراسلہ ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس کے لئے جاری کیا گیا۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر اصلاحات کے سلسلے میں وزیراعظم پاکستان کی منظوری کے ساتھ ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹمز انٹیلی جنس سے انسداد اسمگلنگ کی کارروائیوں کا اختیار لے لیا گیا۔ فیصلے کے تحت ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کے اسٹرکچر میں تبدیلی کر دی ہے۔

نئے اسٹرکچر کے بعد روالپنڈی، ملتان، حیدراباد اور گوادر میں ڈائریکٹوریٹ کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کے دفاتر کو بند کر دیا گیا ہے۔ مراسلے کے مطابق کسٹمز انٹیلی جنس سے بڑے خفیہ آپریشن ( اسٹنگ آپریشنز ) کا کام لیا جائے گا جس کی ہر کارروائی کے لئے خفیہ معلومات کی نوعیت ممبر کسٹمز کو دے کر منظوری لی جائے گی۔ ان اسٹنگ آپریشنز کی کارروائیوں کے قواعد و ضوابط تیار کئے جا رہے ہیں اور جلد ہی اس حوالے سے تفصیلی ایس آر او جاری کردیا جائے گا۔اسی مراسلے کے تحت ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کو آگاہ کردیا جس میں کہا گیا کہ کسٹم انٹیلی جنس کے افسران کسی بھی کنسائمنٹ کو ویبوک میں بلاک یا ڈی بلاک نہیں کرسکیں گے۔

ذرائع کے مطابق کسٹمز انٹیلی جنس کے انفر انتظامی ڈھانچے کی تبدیلی سے آنے والے دنوں کسٹمز انٹیلی جنس میں نفری اور وسائل کو بھی محدود کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کو موجودہ وقت کے مطابق اہم ٹاسک دیا جارہا ہے۔ اس میں یہ شعبہ انسداد اسمگلنگ کی کارروائیوں کے بجائے کسٹمز میں موجود کالی بھیڑوں کی مانیٹرنگ اور اینٹی کرپشن کی کارروائیوں پر توجہ دے گا۔مراسلے میں جاری ہدایات میں ڈی جی کسٹمز انٹیلی جنس سے اگلے ہفتوں میں کسٹمز انٹیلی جنس کے گوداموں، دفاتر، عملے کی تعداد اور تمام متعلقہ تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گوداموں میں موجود مسروقہ سامان کے علاوہ ملک بھر میں کسٹمز انٹیلی جنس کے مقدمات اور انکوائریوں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔

دوسری جانب اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مراسلے کے بعد جہاں کسٹمز انٹیلی جنس کے دفاتر بند کردئے گئے ہیں وہیں اس کے عملے کا بڑا حصہ بھی کسٹمز انفورسمنٹ میں ضم کردیا گیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی کسٹمز انٹیلی جنس کے تمام کیسوں کی تفصیلات تو طلب کی گئی ہیں لیکن کسٹمز انٹیلی جنس کے حکام کو یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آئندہ وہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائیاں کرسکیں گے یا نہیں جبکہ یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ اینٹی منی لانڈرنگ کے جو کیس اور انکوائریاں بنا دی گئیں ہیں ان پر تفتیش جاری رکھی جائے یا پھر کسی دوسرے شعبے کو منتقل کردی جائے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک سینئر افسر کے بقول اس وقت کسٹمز انٹیلی جنس کے تحت اسمگلروں ،ٹیکس چوروں کے خلاف بنائے گئے گھربوں روپے مالیت کے اینٹی منی لانڈرنگ کے کیسوں اور انکوائریوں پر کام ٹھپ ہوگیا ہے ۔

ذرائع کے بقول یہ صورتحال اس وقت حکام کی جلد بازی اور نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جب کہ ایف اے ٹی ایف کا اگلا جائزہ اجلاس قریب ہے ۔ان کی شرائط کے تحت پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ہر برس سینکڑوں مقدمات درج کرنے ہیں اور ہزااروں انکوائریوں پر کام کرنا ہے ۔جس کے اعداد وشمار جائزہ اجلاس میں 2026میں پیش کئے جانے ہیں ۔اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ایف آئی اے حکام کی جانب سے ایف آئی اے کے تحت ملک بھر میں کام کرنے والے اینٹی منی لانڈرنگ سرکلوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ 2025شروع ہونے تک وہ اگلے دو ماہ میں کم سے کم 200نئے مقدمات اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت قائم کریں تاکہ ایف اے ٹی ایف کی شرط پوری کی جاسکے ۔

ذرائع کے مطابق ایک جانب ایک ادارہ صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرکے ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہا ہے جبکہ اسی قانون کے تحت دوسرے کام کرنے والے ادارے کو غیر یقینی صورتحال کا شکار بنا دیا گیا ہے۔اگر یہی کام کرنا مقصود تھا تو پہلے پارلیمنٹ کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں ترمیم کرکے اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائیوں کا اختیار کسٹمز کے کسی دوسرے شعبے کو تفویض کردیا جاتا اور اس کے بعد ایس آر او جاری کیا جاتا ۔کیونکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں ملک کی جن ایجنسیوں کو کارروائی کا اختیار تفویض کیا گیا ہے ان میں ایف آئی اے ،کسٹمز انٹیلی جنس ،اے این ایف ،ایف بی آر انٹیلی جنس شامل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔