مصنف: شاہ اسد خان
اسلام آباد-لاہور موٹر وے، جسے عام طور پر M-2 کہا جاتا ہے، کا افتتاح 1997 میں کیا گیا تھا اور یہ پاکستان کی شاہراہ کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے والا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس موٹر وے نے سفر اور نقل و حمل کو نہایت آسان اور سستا بنا دیا ہے۔ تاہم، اس کے بے شمار فوائد کے باوجود، M-2 میں کچھ سنگین خطرات بھی موجود ہیں، خاص طور پر کلر کہار سالٹ رینج کے علاقے میں، جو حکومت کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
کلر کہار سالٹ رینج میں 10 کلومیٹر طویل راستہ، جو کبھی اپنی خوبصورت مناظر کے لیے جانا جاتا تھا، بدقسمتی سے اب بار بار حادثات کی وجہ سے بدنام ہو چکا ہے۔ اس علاقے کے دلکش نمک کے ذخائر اور پُرسکون مناظر کو ایک تلخ حقیقت نے گھیر لیا ہے: حادثات اور اموات کی بڑی شرح۔ اس کے آغاز سے ہی، اس حصے نے کئی قیمتی جانیں لی ہیں، خاندانوں کو غمگین اور کمیونٹیز کو سوگوار چھوڑ دیا ہے۔ مالی نقصان، جو اربوں میں ہے، بھی اس المیے میں ایک اور پہلو کا اضافہ کرتا ہے۔
عالمی روڈ سیفٹی رہنما اصولوں کے مطابق، گاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے، خاص طور پر بھاری ٹریفک کے لیے، موٹر وے کا زاویہ زیادہ سے زیادہ 3% سے 4% تک ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس، کلر کہار سالٹ رینج میں زاویے 6% سے 8% کے درمیان ہیں، جو محفوظ حد سے کافی زیادہ ہیں۔ یہ ڈھلوانی زاویے بریک فیل ہونے اور سنگین حادثات کے خطرے کو بڑھا دیتے ہیں، جس کے نتائج نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
9 جون 2024 کو ایک دل دہلا دینے والا واقعہ اس خطرناک حصے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک گیس بوزر نے ڈھلوان پر قابو کھو دیا، ایک کار سے ٹکرا گیا اور ایک تباہ کن آگ بھڑک اٹھی۔ بدقسمتی سے، ایک ڈاکٹر، اس کی بیوی اور ان کے دو بچے اس آگ میں ہلاک ہو گئے، اسی طرح گیس بوزر کے عملے کے افراد بھی جان سے گئے۔ یہ صرف ایک واقعہ ہے؛ M-2 کے آغاز سے لے کر اب تک اس مقام پر سینکڑوں حادثات پیش آچکے ہیں، جن میں متعدد اموات اور بہت زیادہ مالی نقصان ہوا ہے۔
کلر کہار سالٹ رینج کی سب سے خطرناک خصوصیت اس کے ڈھلوانی زاویے اور تیز موڑ ہیں، جو عالمی حفاظتی معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان خطرناک ڈھلوانی زاویوں کے لیے غیر معمولی ڈرائیونگ مہارت اور گاڑی کی بہترین حالت ضروری ہے۔ معمولی سی غفلت یا گاڑی کی معمولی خرابی بھی جان لیوا نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ حتیٰ کہ اچھی طرح سے دیکھ بھال کی گئی گاڑیاں بھی ان خطرناک ڈھلوانوں پر قابو پانے میں مشکل محسوس کرتی ہیں، جس سے حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس سنگین صورتحال کے جواب میں، نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز پولیس (NH&MP) اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) نے سالٹ رینج میں حادثات کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں اضافی NHMP افسران اور پیٹرولنگ گاڑیاں تعینات کرنا، جدید اسپیڈ میژرنگ آلات کا استعمال، سڑک کے اشاروں میں بہتری، ایمرجنسی چڑھائی کا نظام، تیز موڑ پر بینکنگ میں بہتری اور پبلک سروس وہیکل (PSV) کانوائے سسٹم شروع کرنا شامل ہیں۔ اگرچہ یہ اقدامات قابل تحسین ہیں، یہ عارضی حل ہیں، مستقل حل کی ضرورت ہے۔
مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور مزید حادثات کو روکنے کے لیے، ایک مستقل حل ضروری ہے۔ اس کے لیے موجودہ سڑک کے ڈیزائن کا مکمل جائزہ لینا اور ڈھلوانی زاویوں اور تیز موڑ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ نرم ڈھلوانوں جیسے متبادل ڈیزائن پر غور کرنا مسافروں کی حفاظت میں نمایاں بہتری لا سکتا ہے۔ اس خطرناک مقام کو مسافروں کے لیے ایک محفوظ راستہ میں تبدیل کرنا حکومت کے لیے محض ایک چیلنج نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک فوری فریضہ ہے۔ عالمی معیار کے مطابق مؤثر ڈیزائن میں تبدیلیوں کو ترجیح دے کر، ہم اس خطرناک موٹر وے حصے کو ایک محفوظ گزرگاہ میں تبدیل کر سکتے ہیں، جس سے مسافروں کی قیمتی جانیں اور املاک محفوظ رہ سکیں گی۔