کاشف ہاشمی:
سی ٹی ڈی نے معمول کے مقدمے کو دہشت گردی کے بین الاقوامی فنڈنگ کیس میں بدل دیا۔ بعد ازاں اس مقدمے کو سی کلاس کر دیا گیا، لیکن اس کے باوجود کیس میں ملوث کیے گئے افراد کو ہراساں کرنے کا عمل جاری ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ آدھی رات کو گھر میں سکون سے سو رہے ہیں، یا چائے کے ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اور اچانک سادہ کپڑوں میں لمبے چوڑے آدمی بڑی بندوقوں کے ساتھ آ پہنچیں۔ آپ کو گھسیٹیں۔ آپ کو گلے سے پکڑیں اور آپ کو گاڑی میں ڈال دیں۔ راستے میں انہوں نے آپ کو مارا پیٹا اور جعلی انکاؤنٹر کرنے کی بات کی۔ جب کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون ہیں یا وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، یا اگلے چند لمحوں میں آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ ذرا سوچیے کہ یہ کتنا خوفناک ہوگا۔ ایسا سن کر بھی بہت خوفناک لگتا ہے، تو تصور کریں کہ ان لوگوں کی کیا کیفیت ہوگی جو اس واقعے سے گزر ے ہوں گے۔
کراچی جو ملک کا معاشی حب سمجھا جاتا ہے، بہت سے لوگوں پر یہ واقعات گزر چکے ہیں۔ یہاں ضلعی پولیس سمیت سندھ اور کراچی پولیس کے بنائے ہوئے خصوصی یونٹ ہیں، جیسے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (CTD) اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (SIU)، جن کے افسران عام طور پر سادہ لباس میں ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان میں جرائم پیشہ افراد میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب میڈیا میں جعلی مقابلوں، قلیل مدتی اغوا، یا بھتہ خوری کے لیے ان یونٹس کے نام بدنام ہونا بھی معمول بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں، سی ٹی ڈی کے کئی افسران اور اہلکار ایسے کئی کیسز میں ملوث ثابت ہوئے ہیں۔ صرف چند مہینوں میں ایسے ایک درجن سے زائد کیسز سامنے آچکے ہیں۔
اگر یہ قلیل مدتی اغوا یا بھتہ خوری کا معاملہ ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن اگر اٹھائے گئے افراد کو بالآخر کلیئر کر بھی دیا جاتا ہے، تب بھی وہ پولیس یا خصوصی یونٹوں کے چنگل میں پھنسے رہتے ہیں۔ انہیں بار بار بلیک میل کیا جاتا ہے اور مختلف بہانوں سے رقم ہڑپنے کے لیے ہراساں کیا جاتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ اب ان کا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔ بھلے ہی جھوٹا الزام لگایا جائے۔ ایسے لاتعداد کیسز ہیں جہاں لوگوں کو ان خصوصی یونٹس کے ذریعے استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ مسلسل بلیک میلنگ کا شکار ہونے کے باعث بھاری رقم سے محروم ہو گئے ہیں۔
اگرچہ اس طرح کے معاملات اکثر شہ سرخیوں میں آتے ہیں۔ لیکن بہت سے کیس ایسے ہیں جن کی اطلاع نہیں دی جاتی، جو صرف متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو تک محدود رہتی ہے۔ ایسا ہی ایک کیس جو اس وقت CTD سے منسلک ہے گزشتہ سال 2023ء سے توجہ کی روشنی میں ہے۔ اس کیس میں مبینہ طور پر متعدد لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ بلیک میل کیا گئے اور مالی طور پر نقصان پہنچایا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو جھوٹے بہانوں کے تحت کیس میں پھنسایا گیا یا ملوث ہونے سے بچنے کے لیے رقم ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ ابتدائی طور پر معمول کی انٹیلی جنس پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ سی ٹی ڈی افسران نے تین نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ سی ٹی ڈی کے دفتر پہنچنے اور ایف آئی آر درج ہونے تک یہ تینوں افراد بین الاقوامی مجرموں میں تبدیل ہو چکے۔ معاملہ آن لائن جوئے کے الزامات سے شروع ہوتا ہے، جو تیزی سے حوالہ ہنڈی کے لین دین، بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ سے فنڈنگ اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات تک پہنچتا ہے۔ تاہم الزام لگانا آسان ہے، لیکن الزام کو ثابت کرنا ایک الگ بات ہے۔
آخرکار ثبوت کی عدم دستیابی پر سی ٹی ڈی کو عدالت میں سی کلاس کی درخواست جمع کرانی پڑی۔ کیس تاہم، بند نہیں کیا گیا۔ اصل تفتیشی افسر انسپکٹر سرفراز اور ان کی ٹیم کو بلدیہ ٹائون میں سابق پولیس افسر کے گھر ڈکیتی کے الزام میں معطل کر دیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ تفتیشی افسر کو ڈکیتی کے الزام میں پکڑا گیا اور آخرکار برطرف کر دیا گیا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ نئے آئی او انسپکٹر طاہر خان کے آنے کے ساتھ ہی بھتہ خوری اور ہراساں کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا، جس سے مقدمے میں نامزد افراد وہیں سے واپس چلے گئے جہاں سے ان پر الزامات لگانے شروع کیے گئے تھے۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جسے ایف آئی آر کے مرحلے کے دوران بین الاقوامی سطح تک بڑھا دیا گیا تھا۔ صرف ثبوت کی کمی کی وجہ سے تفتیش کے دوران اسے سی کلاس میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ تاہم، تفتیشی افسر طاہر خان کی تقرری کے ساتھ ہی یہ بھتہ خوری کا ایک نیا ذریعہ بن گیا۔ اس کیس میں ملوث افراد کو ایک بار پھر ادائیگی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ریکارڈ پر ایک قابل ذکر مثال احسن نامی ایک شخص ہے جو ملک سوسائٹی، اسکیم 33، کراچی میں چائے کے ہوٹل پر بیٹھا تھا۔ طاہر خان نے مبینہ طور پر احسن کو حراست میں لیا اور اسے ڈرانے دھمکانے کے بعد اسے رہا کرنے سے چند گھنٹوں کے اندر اندر سات لاکھ روپے نکلوا لیے۔ احسن نے بعد ازاں اعلیٰ پولیس افسران سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ رقم ادا نہ کرتا تو اسے اس کیس میں مرکزی مجرم کے طور پر پھنسایا جاتا۔ ان کی شکایت کے باوجود، کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔ جس سے تفتیشی افسر طاہر خان کو اس پریکٹس کو جاری رکھنے اور اسی کیس کی آڑ میں بہت سے دوسرے لوگوں سے بھتہ لینے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
احسن نے اپنی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ’’میرے پاس کیا انتخاب تھا؟ میں گھبرا گیا تھا اور بس وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔ مجھے اپنے آپ کو بچانے کے لیے جلد از جلد رقم کا بندوبست کرنا پڑا۔ ورنہ وہ مجھے مارتے اور جھوٹے مقدمے میں پھنساتے۔‘‘ تاہم احسن نے بہادری سے شکایت درج کروائی، لیکن لاتعداد لوگ خاموش رہے۔ یہاں کے پولیس کلچر سے کون واقف نہیں؟ کوئی بھی عام شہری اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس کیس کے بالواسطہ متاثرین میں سے ایک نے بتایا ’’اگر اعلیٰ حکام، احسن کی شکایت کا نوٹس لیتے تو بہت سے لوگ سی ٹی ڈی کے جاری ظلم سے بچ جاتے۔‘‘ ایک اور متاثرہ فرد نے بتایا ’’سی ٹی ڈی افسران دکان داروں کی طرح کام کرتے ہیں، بغیر کسی نگرانی کے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ وہ کسی کو بھی اٹھا سکتے ہیں، انہیں کسی بھی الزام میں فٹ کر سکتے ہیں، یا پیسے لے کر انہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ ان سے پوچھنے والا کون ہے؟‘‘
سی ٹی ڈی کو اصل میں انسداد دہشت گردی کے لیے سندھ پولیس سیل کے طور پر قائم کیا گیا تھا، جو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد سے نمٹنے میں قابل تعریف کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ تاہم، چونکہ حالیہ برسوں میں کراچی میں دہشت گردی کم ہوئی ہے۔ اس لیے اب سی ٹی ڈی کے زیر انتظام زیادہ تر مقدمات میں قلیل مدتی حراست یا دیگر قابل اعتراض طرز عمل شامل ہیں۔ شناخت چھپانے کی شرط پر ایک سی ٹی ڈی افسر نے وضاحت کی کہ ’’غیر قانونی کال سینٹرز اور اس جیسی سرگرمیاں سی ٹی ڈی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتیں۔ یہ ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ تاہم، سی ٹی ڈی افسران اکثر ان مقدمات کو اپنے دائرہ اختیار میں لانے کے لیے دہشت گردی کی مالی معاونت جیسے بعض حصوں کو شامل کرتے ہیں۔ چاہے الزام ثابت نہ بھی ہو۔ سی ٹی ڈی انسداد دہشت گردی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن حالیہ برسوں میں یہ ساکھ داغدار ہوئی ہے۔
بہت سے افسران غیر قانونی طریقوں میں پکڑے گئے اور متعدد شہریوں کو کافی مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ سی آر او (مجرمانہ ریکارڈ آفس) کے اندراج کی بدنامی کی وجہ سے متاثرین کو اکثر مجرمانہ ریکارڈ کی وجہ سے ویزا، اچھی ملازمتوں، یا اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں، ایک ملزم کے علاوہ، تمام مدعا علیہان فی الحال ضمانت پر ہیں۔ ان کے وکیل نے یہاں تک تبصرہ کیا کہ ’’اس کیس میں کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔ اس کیس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس میں کوئی آمادہ نہیں ہے‘‘۔ جب سی ٹی ڈی کے ایک افسر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ، ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایف آئی آر میں جس شخص کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بھی موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کوئی حوالہ ہنڈی کا لین دین ہوا۔ یہ رقم کراچی سے دبئی بھیجی گئی، یا یہ فنڈز بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوئے۔ بات یہ ہے کہ، اگر آپ کے کیس کی بنیاد دہشت گردی کی مالی معاونت پر ہے اور آپ اسے ثابت بھی نہیں کر سکتے، تو پھر آپ کے پاس اس کیس میں ملوث افراد کے ساتھ کچھ مالیاتی ڈیل کرنے کے سوا کیا بچا ہے۔‘‘
ایک سینئر صحافی، جو شروع سے ہی اس کیس کا قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’’شروع سے ہی اس کیس میں بنیادی طور پر کوئی حقیقت نہیں تھی۔ سب جانتے ہیں کہ ایسے کیسز کیوں بنتے ہیں۔ دیکھیں یہ ایک سادہ سا فارمولا ہے۔ سی ٹی ڈی کو اطلاع ملتی ہے۔ وہ چھاپہ مارتی ہے۔ لوگوں کو گرفتار کرتی ہے۔ اور پھر وہ خود اس کیس میں شکایت کنندہ بن کر تفتیش بھی کرتی ہے۔ شروع سے سچ کو جھوٹ میں اور جھوٹ کو سچ میں بدلنے کا اختیار سی ٹی ڈی کے ہاتھ میں ہے۔ کیونکہ اس میں شامل ہر فرد کا تعلق شکایت کنندہ سے لے کر تفتیشی افسر (IO) تک اور بالآخر، جب CTD عدالت میں ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہو جاتی، ان کی پوری کوشش ملزم کے ساتھ ’گفت و شنید‘ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم نکالنے میں بدل جاتی ہے‘‘۔
سینئر صحافی نے مزید کہا کہ اس عمل کے ذریعے سی ٹی ڈی ملزمان سے رقم نکلواتی ہے۔ وہ مقدمے میں زیر حراست اور مفرور دونوں ملزمان کے ساتھ رابطے کو تیز کرتے ہیں اور ہر ایک کو اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے ملزم کے خلاف گواہی دیتے ہیں تو وہ اپنا نام صاف کر سکتے ہیں۔ اس طرح، ہر کوئی پیسے دے کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف گواہی دینا شروع کر دیتا ہے۔
تفتیشی افسر کو عدالت سے اضافی وقت مل جاتا ہے، اس طرح سے افسر کی اصل کوشش ہوتی ہے کہ کیس زیادہ سے زیادہ چلتا رہے تاکہ ان کی ’کمائی‘ جب تک ممکن ہو جاری رہے۔
اس حوالے سے تفتیشی افسر طاہر خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ میں اس میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے بتایا کہ احسن شکل و صورت سے شریف آدمی لگ رہے تھے اس لیے انہیں چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے رشوت اور بھتہ وصول کرنے والی بات کی تردید کی اور کہا کہ کوئی بھی کسی پر کوئی بھی الزام عائد کرسکتا ہے۔