خان کی حالت زار پر ٹرمپ کی خاموشی سے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے، فائل فوٹو
 خان کی حالت زار پر ٹرمپ کی خاموشی سے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے، فائل فوٹو

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے حسینہ و عمران

امت رپورٹ :
پی ٹی آئی اور بنگلہ دیش کی عوامی لیگ، دونوں کے بیشتر رہنما اور سپوٹرز یہ آس لگا بیٹھے ہیں کہ اقتدار میں واپس آنے والے ٹرمپ ان کی لیڈر شپ کو گود لے لیں گے اور ان کا دور پلٹ آئے گا۔ یوں حالات اور خواہشات نے حسینہ واجد اور عمران خان کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ حالانکہ کم از کم عمران خان کے لیے زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

معروف امریکی جریدے فارن پالیسی کے مضمون نگار اور واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کی بھی یہی رائے ہے۔ مائیکل کوگل مین پچھلے کچھ عرصے سے عمران خان کے حق میں ٹویٹس اور مضامین لکھ رہے ہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی سپورٹرز اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم میں خاصے مقبول ہیں۔ وہ عمران خان کی حمایت میں ان کے مضامین اور خیالات کو کافی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر جوش و خروش کے ساتھ لگاتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی جیت سے جڑی پی ٹی آئی کی امیدوں سے متعلق مائیکل کوگل مین نے جو تازہ تجزیہ کیا ہے، اس پر پی ٹی آئی کیمپ میں خاموشی ہے۔ کیونکہ یہ تجزیہ ان کی خواہشات کے برعکس ہے۔

فارن پالیسی میں مائیکل کوگل مین لکھتے ہیں ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کی اور کہا کہ ملک مجموعی طور پر افراتفری کی حالت میں ہے۔ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ امریکی شراکت داری کی بھی تعریف کی۔ امریکی ہندو کارکنوں نے ٹرمپ کے اس تبصرے کو اپنی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا‘‘۔

کوگل مین مزید لکھتے ہیں ’’اسی طرح جیل میں قید سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں کو امید تھی کہ ٹرمپ، خان کی حالت زار پر بھی پوسٹ کرنے کا کچھ وقت نکالیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود سوا چھ لاکھ پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی میں شامل، خان کے بہت سے حامیوں کا خیال ہے کہ دوسری بار اقتدار میں آنے والے ٹرمپ، سابق وزیر اعظم عمران خان کی وکالت میں دلچسپی لیں گے۔ کیوں کہ اس سے پہلے جب ٹرمپ صدر تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے کئی بار ملاقات کی تھی اور انہیں اپنا ’’اچھا دوست‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم یہ ملاقاتیں دوستی سے زیادہ مفاد سے وابستہ تھیں۔

ٹرمپ کو افغانستان سے امریکی انخلا کا عمل شروع کرنے کے لیے عمران خان کی مدد درکار تھی۔ اب منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے‘‘۔ کوگل مین کے بقول ’’ٹرمپ کی اپنی انتخابی مہم کے دوران خان پر خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان، ممکنہ طور پر ان کی ترجیحات کی فہرست میں نہیں ہوں گے‘‘۔

لیکن خوابوں کی دنیا میں رہنے والے پی ٹی آئی کے بعض رہنما اور خاص طور پر اوورسیز چیپٹر خود فریبی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں اور آنکھیں موندے ’’عمران اور ٹرمپ بھائی بھائی‘‘ کے نعرے لگانے میں مصروف ہے۔ اس ضمن میں زلفی بخاری، شہباز گل اور حماد اظہر جیسے پی ٹی آئی رہنماؤں نے تو اپنے کارکنوں کو ’’ٹرمپ کی بتّی‘‘ کے پیچھے لگا ہی رکھا ہے۔ سابق صدر عارف علوی بھی پیچھے نہیں رہے۔

پاکستان کے اس معروف دندان ساز نے ٹرمپ کے نام اپنے خط میں چاپلوسی کی کلاسک مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ کی جیت نے موجودہ اور آنی والے آمروں پر کپکپی طاری کردی ہے۔ میں پاکستانی عوام کی جانب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، ہم جمہوری قوموں کے طور پر مسلسل تعاون کے منتظر ہیں۔ آپ جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں، آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔

ایک پی ٹی آئی کا پسندیدہ امریکی تجزیہ نگار مائیکل کوگل مین ہی عمران خان کے پیروکاروں کو یہ صلاح نہیں دے رہا کہ ’’ٹرمپ کی بتّی‘‘ کے پیچھے لگنا بے وقوفی ہے۔ پاکستان کے ایک سابق سفیر نے بھی لگ بھگ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سابق سفیر اور جارج ٹاؤن یونی ورسٹی سے منسلک پروفیسر توقیر حسین کی جانب سے ایک معاصر انگریزی اخبار میں لکھے گئے طویل مضمون کے ایک حصے کا مطلب نکالا جائے تو وہ یہ بنتا ہے کہ ٹرمپ نے دوستی کے نام پر خان کو ’’ماموں‘‘ بنایا تھا۔

وہ لکھتے ہیں ’’ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب سے پاک امریکا تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ایک افسانے کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ درست نہیں کہ جب ٹرمپ صدر تھے تو پاکستان کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان سے طالبان سے بات چیت میں مدد مانگی۔ خان کو واشنگٹن کے دورے اور ٹرمپ کی جانب سے غیر معمولی تعریف سے نوازا گیا۔ لیکن ایک بار جب طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تو ٹرمپ نے پاکستان کی طرف سے منہ موڑ لیا۔ ٹرمپ صرف اعلیٰ ملکی مفاد پر توجہ رکھتے ہیں۔ وہ غالباً اسلام آباد کے ساتھ جو بائیڈن والی پالیسی کو ہی جاری رکھیں گے۔ جس میں نہ زیادہ شدت ہوگی اور نہ زیادہ بے رْخی‘‘۔

دوسری جانب عوامی غیض و غضب پر ملک سے فرار ہونے والی بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کی پارٹی عوامی لیگ نے بھی ’’بُت‘‘ سے امیدیں لگا رکھی ہیں۔ پی ٹی آئی سپورٹرز کی طرح حسینہ واجد کے پیروکاروں کو آس ہے کہ ٹرمپ اقتدار سنبھالتے ہی ان کی مفرور لیڈر کی واپسی کا راستہ ہموار کردے گا۔ خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی جانب سے بنگلہ دیش کے ہندوؤں سے ہمدردی کے اظہار نے عوامی لیگ کی امیدوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ لیکن وہ بھی اس حقیقت کو فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ ٹرمپ کی یہ ہمدردی حسینہ واجد کی حمایت میں نہیں، بلکہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے تھی جسے امریکہ نے اپنا اسٹریٹجک پارٹنر بنایا ہوا ہے۔

امریکہ میں عمران خان کے پیروکاروں کی طرح ریاست مشی گن میں حسینہ واجد کے کارندوں نے بھی ’’عوامی یوتھ الائنس‘‘ بنا رکھا ہے جو دن رات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بنگلہ دیش میں ڈاکٹر یونس کی زیر نگرانی چلنے والی عبوری حکومت کے خلاف زہر اگلتا رہتا ہے۔ عوامی لیگ کے حامی ان بنگلہ دیشی نژاد امریکیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ بھارت کی خوشنودی کے لیے اس کی ایجنٹ حسینہ واجد کی مدد کرے گا۔ ٹرمپ کی جیت پر حسینہ نے بھی ٹرمپ کو مبارکباد کا خط لکھا ہے۔ لیکن وہ چاپلوسی میں علوی کو شکست نہیں دے سکی۔

ٹرمپ کے نام اپنے خط میں مفرور سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے لکھا ’’الیکشن میں شان دار کامیابی آپ کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں اور آپ پر امریکی عوام کے بے پناہ اعتماد کا ثبوت ہے‘‘۔ حسینہ واجد نے ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان سے اور ان کی اہلیہ سے بطور وزیر اعظم اپنی ہونے والی ملاقاتوں اور رابطوں کو بھی یاد کیا۔ جس میں بین السطور یہ دبی دبی التجا ہے ’’میرے وہ دن لوٹا دو‘‘۔