ارشاد کھوکھر:
گزشتہ ہفتے سندھ کابینہ میں کی گئی ردوبدل کے بعد پہلے کے مقابلے میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی منظوری سے کی گئی مذکورہ ردوبدل سے سید مراد علی شاہ کی تجاویز کو زیادہ اہمیت ملی۔ اس کے علاوہ تقریباً 7 ماہ قبل اسلحہ اسمگلنگ کے الزامات کے باعث وزیراعلیٰ کے مشیر کے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے بابل خان بھیو ایک بار پھر مشیر بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی مکیش چائولہ بھی صدر مملکت آصف علی زرداری کی ناراضگی ختم کرانے کے بعد سندھ کابینہ کا حصہ بن گئے ہیں۔
حکومت کی سندھ کے اعلیٰ سطح کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے بعد مارچ میں جب سندھ حکومت کے قیام کے بعد جو صوبائی کابینہ تشکیل دی گئی تھی۔ اس میں بلاول بھٹو زرداری اور سید مراد علی شاہ کا زیادہ زور نہیں چل سکا تھا۔ لیکن 15 نومبر کو صوبائی کابینہ میں جو ردوبدل ہوئی ہے۔ اس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا زور چل گیا۔ جس میں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی تجاویز کو بھی اہمیت دی گئی۔ جس کے باعث پہلے کے مقابلے میں سید مراد علی شاہ زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سید مراد علی شاہ 2016ء میں وزیراعلیٰ بننے سے قبل جب صوبائی وزیر تھے تو اس وقت بھی خصوصاً محکمہ خزانہ و محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے محکموں کا قلمدان ان کے پاس تھا۔ اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی ان محکموں کا قلمدان ان کے پاس رہا۔ لیکن مارچ میں جب وہ تیسری بار وزیراعلیٰ بنے تو محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کا قلمدان ان کے حصے میں نہیں آیا۔ اس طرح سید ناصر حسین شاہ مذکورہ محکمے کے وزیر بنے۔ لیکن اب جو تبدیلی کی گئی ہے اس کی وجہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تقریباً ایک درجن محکموں کے قلمدان وزیراعلیٰ سندھ کے پاس آگئے ہیں۔
15 تاریخ نومبر کو نہ صرف سندھ کابینہ میں تبدیلی ہوئی بلکہ وزیراعلیٰ سندھ کے 10 معاونین خصوصی کو بھی محکموں کے قلمدان دیے گئے ہیں۔ انہیں جو قلمدان دیے گئے ہیں ان میں لعل چند اکرانی کو محکمہ اقلیتی امور، سرفراز راجڑ کو خصوصی تحفظ، قاسم شاہ کو محکمہ سرمایہ کاری و سرکاری و نجی شراکت (پی پی پی) پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سید وقار مہدی کو وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم، راجیور سنگھ کو انسانی حقوق، منصور شاہانی کو امور طلبہ، عثمان ہنگورو کو بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز، عبدالجبار خان کو محکمہ خوراک، جنید بلند کو ایس ٹیوٹا اور سلیم بلوچ کو محکمہ صحت عامہ و رورل ڈیولپمنٹ کے قلمدانوں کی ذمے داری دی گئی ہے۔
قانونی طور پر دیکھا جائے تو معاونین خصوصی کو مشیروں اور وزرا کی طرح محکموں کے قلمدان الاٹ نہیں ہو سکتے۔ اور نہ ہی ان کے پاس وہ اختیارات ہیں۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے اختیارات کسی کو بھی تفویض کر سکتے ہیں۔ اس طرح مذکورہ معاونین خصوصی کو جن محکموں کے قلمدان دیے گئے ہیں۔ عملی طور پر ان محکموں کے وزیر کے اختیارات بھی وزیراعلیٰ سندھ کے پاس آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی وزیر محمد علی ملکانی سے محکمہ بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کا قلمدان واپس لے کر انہیں محکمہ لائف اسٹاک و فشریز کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ جس کے باعث محکمہ بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کے محکمے کے وزیر بھی وزیراعلیٰ سندھ بن گئے ہیں۔
کابینہ میں جو تبدیلی کی گئی ہے اس کے مطابق تقریباً 7 ماہ کے بعد اللہ ڈنو بھیو المعروف بابل خان بھیو بھی پھر سے وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر بن گئے ہیں اور انہیں اسی پرانے محکمے یعنی محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کا قلمدان دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اپریل 2024ء میں ضلع جیکب آباد میں اسلحہ اسمگلنگ کا جو اسکینڈل سامنے آیا تھا اس میں بابل خان بھیو پر ملوث ہونے کے الزامات لگے تھے اور ان کے بیٹے الطاف بھیو جونیئر کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ جس کے بعد بابل بھیو کو مشیر کے عہدے سے مستعفی ہونا تھا۔ مذکورہ اسلحہ اسمگلنگ کیس اسکینڈل کا جو مقدمہ درج کیا گیا تھا اس میں تین پولیس اہلکار اور چار نجی افراد کے نام بھی شامل تھے۔ اور یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پولیس اہلکار بابل خان بھیو کے اسکواڈ میں شامل تھے۔ لیکن اب وہ معاملہ بھی رفع دفع ہو گیا اور بابل خان بھیو پھر سے مشیر بن گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 2008ء سے مسلسل صوبائی وزیر رہنے والے مکیش کمار چائولہ اس حکومت میں کابینہ کا حصہ بننے میں ناکام ہو گئے تھے جس کی اصل وجہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی ان پر سخت ناراضگی تھی لیکن اب حساب کتاب کے بعد وہ بھی نہ صرف صوبائی وزیر بن گئے ہیں بلکہ وہ اپنے پسندیدہ محکمے محکمہ آبکاری و محصولات کا قلمدان حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ مکیش کمار چائولہ کا شمار بھی وزیراعلیٰ سندھ سے قریبی تعلقات رکھنے والے ایم پی ایز میں ہوتا ہے۔