پروجیکٹ کی لاگت اربوں روپے بڑھنے پر صوبائی حکومت کو عالمی اداروں کو مزید سود دینا پڑے گا، فائل فوٹو
پروجیکٹ کی لاگت اربوں روپے بڑھنے پر صوبائی حکومت کو عالمی اداروں کو مزید سود دینا پڑے گا، فائل فوٹو

خیبرپختون حکومت نے امیر مقام کو نواز دیا

محمد قاسم :
خیبرپختونخوا کی حکومت نے وفاقی وزیر امیر مقام کے بیٹے کی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کیلئے اضافی رقم کی کابینہ سے منظوری لے لی۔ پروجیکٹ کی لاگت بڑھنے سے صوبائی حکومت کو عالمی اداروں کو مزید سود دینا پڑے گا۔

صوبے میں برسر اقتدار پی ٹی آئی حکومت نے سیاحت کے فروغ کیلیے قرض پر لئے جانے والے اربوں روپے فنڈ میں بے قاعدگیوں کو قانونی تحفظ بھی دے دیا۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ مختلف صوبائی محکموں کے اعتراض کے باوجود وفاقی وزیر برائے اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز انجینئر امیر مقام کے بیٹے کی تعمیراتی فرم (ایم ایس اعتماد بلڈرز اینڈ کمپنی) کو فائدہ پہنچانے کیلئے صوبائی کابینہ کو استعمال کیا۔ جس نے فنڈز میں اضافے کی منظوری دے دی۔

ذرائع کے مطابق 2019ء میں پی ٹی آئی کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان کی حکومت نے انٹی گریٹڈ ٹورازم زونز منصوبے کیلئے عالمی بنک سے 10 کروڑ ڈالر قرضہ لیا۔ اس وقت ڈالر کی پاکستانی کرنسی میں قیمت 140 روپے تھی۔ اس طرح یہ قرضہ 14 ارب روپے بنا۔ اس منصوبے میں صوبائی حکومت نے بھی 3 ارب روپے ڈالے۔ جس سے منصوبے کے فنڈز 17 ارب روپے ہو گئے۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دو پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بنائے گئے۔ جو ایک کمیونی کیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔ جبکہ دوسرا محکمہ سیاحت میں موجود ہے۔

اس منصوبے کے تحت ضلع سوات میں منکیال کے 23 کلومیٹر روڈ کیلئے 3 ارب 48 کروڑ روپے، جبکہ ضلع ایبٹ آباد کے علاقہ ٹھنڈیانی میں 24 کلومیٹر سڑک کی تعمیر کیلئے 2 ارب 58 کروڑ 45 لاکھ روپے کی منظوری دی گئی۔ جو کُل 6 ارب 6 کروڑ 54 لاکھ 46 ہزار بنتے ہیں۔ لیکن ستمبر 2022ء میں ٹینڈر کے ذریعے دونوں منصوبوں کا ٹھیکہ 8 ارب 74 کروڑ 93 لاکھ پر دیا گیا۔ منکیال سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ 5 ارب 75 کروڑ 52 لاکھ اور ٹھنڈیانی سڑک کا ٹھیکہ 2 ارب 99 کروڑ 41 لاکھ پر دیا گیا۔ جو اصل پریکٹیکل کاپی ون (پی سی ون) سے 2 ارب 68 کروڑ روپے زیادہ ہے۔

’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ اصل میں عالمی اداروں سے جو قرضے لئے جاتے ہیں۔ ان کی لاگت بڑھانے کیلئے اور ان کی لاگت بڑھ جانے کے بعد بیورو کریسی اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے ایک قانونی کور لیتی ہے اور یہ کور صوبائی کابینہ سے منظوری کا ہوتا ہے۔ یوں اس منصوبے میں بھی صوبائی کابینہ کو استعمال کیاگیا۔ صوبے میں گزشتہ بارہ برس سے پی ٹی آئی کے ہم خیال اعلیٰ سرکاری عہدیدار چار چار عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور کئی پروجیکٹ ڈائریکٹر بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ادارے کے ایڈیشنل سیکریٹری اور کاموں کے فوکل پرسنز بھی ہوتے ہیں۔ اسی لئے اپنی نا اہلی چھپانے کے لئے صوبائی کابینہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق اگر گزشتہ بارہ برسوں کا آڈٹ کرایا جائے تو صوبے کو ملنے والے اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کے قرض کے منصوبے تاحال مکمل نہیں ہوئے اور صوبے کے عوام کو اربوں روپے کا اضافی سود دینا پڑ رہا ہے۔ جبکہ مسلسل پی ٹی آئی حکومت قائم ہونے کی وجہ سے آڈٹ بھی نہیں ہو سکا۔ نگران حکومت نے بھی پی ٹی آئی حکومت کا آڈٹ نہیں کرایا۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے مینول فار ڈیولپمنٹ پروجیکٹس کی جنرل گائیڈ لائنز فار پراسسینگ اینڈ اپروول آف پی سی ون کی سیکشن 4 کے تحت کسی بھی منصوبہ کیلئے متعین کردہ لاگت میں 15 فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ’کائٹ‘ کے ان منصوبوں میں 45 اضافہ کیا گیا۔ جو غیرقانونی ہے۔

سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ نے اس بے ضابطگی کو دور کرنے کیلئے تین ماہ کے اندر ہی 10 ارب 70 کروڑ روپے کا نظر ثانی شدہ پی سی ون تیار کرکے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کو بھجوایا۔ جس نے اس دستاویز پر 100 سے زائد اعتراض لگا کر اسے واپس کر دیا۔ اُس وقت محکمہ سیاحت نے سوالات اٹھائے کہ کس قانون کے تحت 2 ارب 68 کروڑ اضافی رقم پر ٹھیکہ دیا گیا۔ اس منصوبے کیلئے لیا گیا قرض کس طرح واپس کیا جائے گا۔

نیز محکمہ سیاحت کا کہنا تھا کہ اس کی ٹیکنکل منظوری بھی نہیں لی گئی۔ مارچ 2024ء میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے پانچ ماہ بعد اگست کے وسط میں، صوبائی حکومت کے مبینہ کرپشن میں ملوث ہونے کی بنا پر، مستعفی ہونے والے ورکس اینڈ کمیونی کیشن کے وزیر شکیل احمد خان نے انہی منصوبوں کی تحقیقات شروع کی تھیں۔ انہوں نے پارٹی کی احتساب کمیٹی کو بھیجے گئے ایک مراسلہ میں موقف اختیار کیا تھا کہ اعتماد بلڈرز کو غیر قانونی طور پر ٹھیکہ دیا گیا۔ جب تحقیقات کے سلسلہ میں متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو محکمہ کے سیکریٹری نے انہیں ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ دوبارہ تحقیقات کا حکم دینے پر وزیر اعلیٰ کے احکامات پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی بنادی گئی۔ تاکہ وہ تحقیقات بند کر دیں۔

13 اگست 2024ء کو پروونشل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (پی ڈی ڈبلیو پی) کے جاری ہونے والے مِنٹس آف دی میٹنگ کے مطابق دونوں منصوبوں پر کل 36 اعتراضات اٹھائے گئے۔ جن میں سے صرف 20 کے جوابات دیئے گئے۔ تاہم ٹھنڈیانی روڈ کے نظرثانی شدہ پی سی ون میں قیمت کو بڑھا کر 4 ارب 48 کروڑ 85 لاکھ 69 ہزار اور من کیال روڈ کی لاگت 6 ارب 21 کروڑ 80 لاکھ 99 ہزار تک کر دی گئی۔ جو کل 10 ارب 70 کروڑ 66 لاکھ 68 ہراز روپے بنتے ہیں۔ لیکن ان تمام تحفظات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کابینہ نے رواں ماہ کی 6 تاریخ کو اپنی 17 ویں میٹنگ میں دونوں منصوبوں کو 10 ارب 36 کروڑ پر منظور کرکے نہ صرف اسے قانونی تحفظ فراہم کیا۔ بلکہ پی اینڈ ڈی کی جانب سے کنسلٹنٹ پر لگائی جانے والی پینلٹی (جرمانہ) کو بھی ختم کر دیا۔