محمد نعمان:
کراچی میں تجاوزات آپریشن سے متاثرہ دکان دار اور مکین تاحال دربدر ہیں۔ اب تک کسی بھی متاثرہ فرد کو، کے ایم سی کی جانب سے کوئی متبادل جگہ نہیں دی گئی۔ ایمپریس مارکیٹ، جوبلی مارکیٹ، چڑیا گھر، گجر نالہ، لائٹ ہائوس اور الہ دین پارک سمیت دیگر علاقوں میں تجاوزات آپریشن سے متاثرہ دکانداروں سے کے ایم سی نے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ جب کہ نیو کراچی 7 ہزار روڈ پر واقع 11سو دکان داروں سے بھی متبادل جگہ کا وعدہ تو کرلیا گیا ہے، لیکن ا ب تک اس کے لیے کسی قسم کا انتظام نہیں کیا جاسکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ایم سی کی اربوں روپے مالیت کی زمینیں قبضہ ہوچکی ہیں، جس کے باعث کے ایم سی کے پاس اب متبادل جگہ دینے کے لیے اراضی موجود ہی نہیں۔ چناں چہ تجاوزات آپریشن کی زد میں آنے والے نیو کراچی 7 ہزار روڈ کے 11سو دکان دار بھی متبادل جگہ سے محروم رہ سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ کراچی کی قدیم اور معروف مارکیٹ ایمپریس مارکیٹ پر تجاوزات کیخلاف آپریشن سے قبل کے ایم سی کی جانب سے وعدے کیے گئے تھے کہ ان ایک ہزار سے زائد دکانداروں کو متبادل فراہم کیا جائے گا۔ ایمپریس مارکیٹ میں جو دکانیں کے ایم سی نے مسمار کیں وہ 50 سال پرانی تھی۔ ایمپریس مارکیٹ میں گوشت، سبزی، پرندہ مارکیٹ اور لنڈا بازار سمیت دیگر بازار اور دکانیں تھی جو کے ایم سی نے عدالتی احکامات کے بعد ختم کروادی تھیں۔ اس آپریشن کے بعد متاثرہ دکانداروں کی جانب سے صدر رینبو سینٹر اور نعمان شاپنگ سینٹر کے اطراف احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
متاثرہ دکانداروں نے احتجاجی کیمپ بھی لگائے، جس کے بعد ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں متبادل دکانیں فراہم کی جائیں گی۔ متاثرہ دکانداروں کو کہا گیا تھا کہ وہ شہاب الدین مارکیٹ چلے جائیں اور جگہ دیکھ لیں۔ اس کے بعد ان کا کاروبار یہاں منتقل کردیا جائے گا۔ شہاب الدین مارکیٹ، ایمپریس مارکیٹ کے عقب میں واقع ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ دکاندار جب شہاب الدین مارکیٹ پہنچے تو انہیں کے ڈی اے نے یہاں کام کرنے سے روک دیا۔ کے ڈی اے نے جواز بنایا کہ یہ زمین لائنز ایریا ری ڈیولمپنٹ پروجیکٹ کی اراضی ہے۔ اور یہاں کسی قسم کی متبادل جگہ نہیں دی جاسکتی۔ یوں ایمپریس مارکیٹ کے ایک ہزار سے زائد دکاندار کے ایم سی اور کے ڈی اے کی حدود کی جنگ کا شکار ہوگئے اور انہیں آج تک متبادل فراہم نہیں کیا جاسکا۔
جوبلی کلاتھ مارکیٹ بھی کئی سال پرانی ہے۔ یہ مارکیٹ نالے پر بنائی گئی تھی جس سے کے ایم سی انسداد تجاوزات اور محکمہ اسٹیٹ کا عملہ بھاری رشوت وصول کرتا رہا ہے۔ جوبلی کلاتھ مارکیٹ میں گیس بھرجانے پر دھماکہ بھی ہوا تھا، جس پر کے ایم سی نے 150سے زائد دکانیں مسمار کرنے کے لیئے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔ کے ایم سی نے جوبلی کلاتھ مارکیٹ میں آپریشن کرتے ہوئے متعدد دکانیں مسمار کردی تھی اور ان متاثرہ دکانداروں کو بھی یہی کہا گیا تھا کہ ان کے لیے متبادل انتظام کیا جائے گا۔ لیکن جوبلی کلاتھ مارکیٹ کے متاثرہ دکاندار بھی آج تک دکانوں سے محروم ہیں۔2021ء میں مردہ سیاست زندہ کرنے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ نے ان دکانداروں کے احتجاج میں شرکت کی تھی اور ضلعی انتظامیہ و کے ایم سی کو شدید تنقید کا نشانہ بنای۔ لیکن متبادل کا وعدہ ہونے پر متحدہ نے احتجاج ختم کروادیا تھا اور اس طرح جوبلی مارکیٹ کے دکاندار بھی متبادل سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کراچی چڑیا گھر کے اطراف 2019ء میں آپریشن شروع کیا گیا تھا، گیٹ نمبر ایک سے 5 نمبر گیٹ تک 300 سے زائد دکانیں ، ریسٹورنٹس، دفاتر مسمار کیے گئے تھے۔ کے ایم سی اور سندھ حکومت کی جانب سے فیصلہ کیا گیا تھا کہ کراچی چڑیا گھر کو خوبصورت بنانے کے لیے فٹ پاتھ پر بنی دکانیں و دیگر تجاوزات مسمار کرنا ضروری ہیں۔ یہ دکانیں اور دفاتر کے ایم سی محکمہ اسٹیٹ نے تعمیر کروائی تھیں جن سے لاکھوں روپے رشوت وصولی کے علاوہ ماہانہ ہزاروں روپے بھتہ وصول کیا جاتا رہا۔ فٹ پاتھ پر بنی دکانیں و دیگر تجاوزات ہیوی مشینری کے ذریعے مسمار تو کردی گئی۔ لیکن انہیں بھی کسی قسم کا متبادل فراہم نہیں کیا گیا۔ کراچی چڑیا گھر آپریشن کے دوران متاثرہ دکانداروں نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ مرکزی سڑک پر احتجاجی دھرنا دیا تھا جس کے بعد ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں متبادل روزگار فراہم کیا جائے گا لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔
لائٹ ہائوس نالے پر بنی 100سے زائد دکانیں بھی مسمار کردی گئی تھی اور اس آپریشن میں بھی وعدہ کیا گیا کہ ان دکانداروں کو متبادل فراہم کیا جائے گا۔ لیکن یہ دکاندار بھی باقی کی طرح محروم رہے ہیں۔ اسی طرح کراچی کا معروف الہ دین پارک پر بھی عدالتی احکامات پر آپریشن کیا گیا تھا۔ ان دکانداروں، جھولے والوں و دیگر کاروباری افراد سے کے ایم سی، سندھ حکومت و دیگر نے وعدہ کیا تھا کہ ان کو متبادل فراہم کریں گے۔ لیکن الہ دین پارک کے بھی ہزاروں افراد متبادل کے نام پر بے وقوف بن گئے۔
دوسری جانب گجر نالہ آپریشن کے بعد کچھ متاثرین کو چیک تقسیم کیے گئے اور بعض متاثرین سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں متبادل فراہم کیا گیا، جس پر گجر نالہ متاثرین بھی دربدر ہیں۔ اب ایک بار پھر نیو کراچی 7 ہزار روڈ پر واقع نالے کے اوپر بنی 11سو دکانوں کے مالکان سے متبادل کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن انہیں متبادل فراہم کرنے کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ذرائع نے کا کہنا ہے کہ کے ایم سی کے پاس کسی قسم کی زمین نہیں ہے۔ رزاق آباد ٹرمنل کی کئی ایکڑ زمین پر قبضہ ہوچکا ہے۔ اورنگی ٹاؤن پروجیکٹ کی زمین پر بھی قبضہٰ کرلیا گیا ہے۔
کورنگی اور لانڈھی کی زمینیں بھی کے ایم سی کے پاس نہیں رہی ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن اور مشرف کالونی کی کروڑوں روپے مالیت کی زمین بھی مافیا ہڑپ کرچکی ہے۔ چناں چہ اب کے ایم سی کے پاس متبادل دینے کو جگہ ہی نہیں ہے تو وہ کیسے وعدہ کرسکتی ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ نیو کراچی دکانداروں سے بھی وعدہ تو کرلیا گیا ہے لیکن کے ایم سی نے اب تک کسی قسم کی جگہ نہیں تلاش کی ہے۔ میئر کراچی کی ہدایت پر اعلیٰ سطع اجلاس تو منعقد ہوا لیکن پروجیکٹ اورنگی ٹاؤن، کچی آبادی اور لینڈ ڈپارٹمنٹ نے اب تک میئر کراچی کو خالی جگہ سے متعلق آگاہ نہیں کیا ہے۔
خبر پر موقف کے لیے ترجمان کے ایم سی علی حسن ساجد سے رابطہ کیا گیا۔ تاہم انہو ں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔ انہیں مسیج کے ذریعے بھی آگاہ کیا گیا، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔