علی جبران :
کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر فرد جرم عائد کی جاچکی ہے اور اب ان کے خلاف آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ یہ کارروائی کب تک اختتام پذیر ہوگی، یعنی فیض حمید کے کیس کا فیصلہ کتنے عرصے میں متوقع ہے؟ آگے کے مراحل کیا ہوں گے؟ یہ سب معلوم کرنے کے لئے ’’امت‘‘ نے دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کیس کا فیصلہ دوسے چار ماہ میں متوقع ہے اور فیض حمید کو سخت ترین سزا سنائے جانے کا امکان ہے۔ اس میں انہیں عمر قید اور سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔
بات چیت کے آغاز میں آصف ہارون سے استفسار کیا گیا کہ فرد جرم عائد کرنے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ تو ان کا کہنا تھا ’’جنرل فیض حمید کی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں سمیت ان کی دیگر چیزیں سامنے آرہی تھیں۔ ایسے میں نو مئی کا واقعہ ہوگیا۔ نو مئی دو ہزار تئیس کے واقعات کے بعد فیض حمید کی سرگرمیوں کی ٹریکنگ شروع کردی گئی تھی۔
اس ٹریکنگ میں دیکھا گیا کہ فیض حمید پس پردہ کس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ کس سے ان کی بات ہورہی ہے اور کیا بات ہورہی ہے۔ کس سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس ٹریکنگ میں انکشاف ہوا کہ فیض حمید نو مئی کے واقعہ کی پلاننگ سمیت دیگر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس کے تمام شواہد اکٹھے کئے گئے۔ ٹریکنگ کا عمل نو مئی دو ہزار تئیس کے بعد سے اگست دو ہزار چوبیس تک چلا۔ اس عرصے کے دوران اتنے شواہد جمع کرلئے گئے کہ فیض حمید کو گرفتار کیا جاسکے اور حاصل شدہ شواہد کو ثابت کیا جاسکے۔ پھر فیض حمید گرفتار ہوگئے اور ان کے کورٹ مارشل کا فیصلہ ہوگیا۔ اس کے بعد کا مرحلہ فرد جرم عائد کرنا ہوتا ہے، جو کی جاچکی ہے۔
اگست میں فیض حمید کی گرفتاری سے لے کر اب تک ان سے مسلسل انوسٹی گیشن کی گئی اور مزید ٹھوس شواہد جمع کئے جاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیض حمید پر فرد جرم عائد کرنے میں کچھ زیادہ وقت لگ گیا‘‘۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کے بقول اگر معاملہ فرد واحد کا ہو تو عموماً کارروائی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ لیکن فیض حمید کا معاملہ چونکہ فرد واحد کا نہیں اور ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی شامل تھے، لہٰذا یہ عمل ذرا طویل ہوگیا کیونکہ انہوں نے دوران تفتیش جن دیگر لوگوں کے نام لئے، اس بارے میں بھی تحقیقات کرکے ٹھوس شواہد حاصل کرنے تھے۔
اس سوال پر کہ فرد جرم کے بعد اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟ آصف ہارون نے بتایا ’’فرد جرم عائد ہونے کے بعد اب باقاعدہ کیس کی سماعت شروع ہوگی اور معاملہ سزا کی طرف جائے گا۔ اس عمل کے دوران ملزم کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنے دفاع کے اپنی مرضی کا ایک یا ایک سے زیادہ وکیل ہائر کرسکتا ہے۔ یہ وکیل پرائیویٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملزم کو اپنے دفاع میں جتنے چاہے گواہ پیش کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔
اس عمل میں دو سے چار ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اتنے ماہ لگنے کا امکان اس لئے ہے کہ دوران سماعت جرح کے دوران جب فیض حمید کے شریک ملزمان کا نام بھی سامنے آئے گا تو پھر ان کو بھی ملٹری کورٹ میں پیش کرنے کا عمل شروع ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جنرل مشرف کے خلاف ایمرجنسی لگانے سے متعلق کیس سول عدالت میں شروع ہوا تھا تو انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ایمرجنسی لگانے میں وہ اکیلے ملوث نہیں تھے، ان میں شوکت عزیز اور دیگر بھی شامل تھے لہٰذا ان کو بھی بلایا جائے۔
امکان ہے کہ اسی طرح کا موقف فیض حمید بھی اختیار کرسکتے ہیں اور دیگر ملوث افراد کا نام دے سکتے ہیں۔ اس صورت میں دیگر ملوث افراد کو بھی ملٹری کورٹ میں لایا جاسکتا ہے۔ یہ سارا عمل کچھ وقت لے سکتا ہے۔ اسی لئے میرا کہنا ہے کہ فیض حمید کے کیس کا فیصلہ یا انہیں سزا سنائے جانے کا عمل دو سے چار ماہ میں متوقع ہے۔ ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔‘‘ اس سوال پر کہ سزا سنائے جانے کی صورت میں فیض حمید کو کتنے فورمز پر اپیل کا حق ہوگا؟ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ انہیں پہلے آرمی چیف سے اپیل کا حق ہوگا۔ اس کے بعد وہ اپنی سزا کے خلاف ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ سزامعاف کرانے کا آخری فورم صدر مملکت سے اپیل کا ہوگا۔
جب آصف ہارون سے استفسار کیا گیا کہ فیض حمید کے کیس میں عمران خان کے ملوث ہونے کے کتنے امکانات ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا ’’اس کا انحصار اس پر ہے کہ فیض حمید نے دوران تفتیش اس حوالے سے ان کا نام لیا ہے یا نہیں اور یہ کہ دوران سماعت وہ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ اگر فیض حمید یہ کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے سب کچھ عمران خان کے کہنے پر کیا تھا، یا نو مئی کی پلاننگ میں بانی پی ٹی آئی بھی شریک تھے تو یقیناً عمران خان بھی اس کیس کی زد میں آجائیں گے۔ اس صورت میں عمران خان کو ملٹری کورٹ میں لانے کا جواز مل جائے گا۔‘‘
اس سوال پر کہ اس صورت میں کیا عمران خان کو فوجی تحویل میں لیا جائے گا؟ آصف ہارون کا کہنا تھا کہ یہ تو پہلے ہی ہوجانا تھا لیکن چونکہ فوجی عدالتوں کا معاملہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں زیر التوا ہے، اس لئے اس عمل میں تاخیر ہورہی ہے۔ اگر فیض حمید ملکی خلفشاد اور نو مئی کے واقعات میں عمران خان کے ملوث ہونے کا اقرار کرلیتے ہیں تو پھر بانی پی ٹی آئی پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلانے کے حوالے سے حکومت کا کیس مضبوط ہوجائے گا۔ جب آصف ہارون سے استفسار کیا گیا کہ ملٹری کورٹ سے فیض حمید کو سزا سنائے جانے کی صورت میں انہیں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کا کتنا امکان ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ملٹری کورٹ سے سزا پانے والوں کو سول عدالتوں سے ریلیف مل گیا۔ مثلاً دو ہزار سترہ میں ملٹری کورٹس سے سزاپانے والے بہت سے دہشت گردوں کو رہا کردیا گیا تھا۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ قانون سازی ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ریفارمز ہورہی ہیں۔ اب مجرمان کو کھلی چھوٹ ملنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ لہٰذا سزا سنائے جانے کی صورت میں فیض حمید کو سول عدالتوں سے ریلیف ملنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ ان کے خلاف حاصل ہونے والے شواہد بہت ٹھوس ہیں۔ پھر یہ کہ ان کے خلاف ایک نہیں کئی کیسز ہیں۔ فیض حمید کو متوقع سزا کے بارے میں آصف ہارون کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کے کیسوں میں عموماً عمر قید یا سزائے موت کا امکان ہوتا ہے۔ اس لئے فیض حمید کو سخت ترین سنائے جانے کا غالب امکان ہے۔