عمران خان :
یورپ میں خراب چاول ایکسپورٹ کرکے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس خطرے میں ڈالنے والے عناصر کے خلاف ایف آئی اے کراچی، سرگرم ہوگئی۔ یورپ میں خراب چاول بھیجنے پر 72 کمپنیاں ریڈار پر آگئی ہیں۔
گزشتہ عرصہ میں چاولوں کی برآمد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ یہ 4 ارب ڈالر ایکسپورٹ، پاکستان کیلئے اس وقت بہت اہم ہے۔ ان چاولوں کی کلیئرنس دینے پر پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سندھ کے ڈی جی سمیت 17 رکنی پوری ٹیم مقدمہ میں نامزد کرکے فارغ کردی گئی ہے۔ اب تک اسکینڈل میں ایف آئی اے نے 10ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ جبکہ مفرور ڈی جی کو ساتھیوں سمیت ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے۔
اسکینڈل پر ابتدائی کارروائی کی رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے کے توسط سے وزیراعظم کو ارسال کردی گئی ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق مذکورہ اسکینڈل پر رواں برس ماہ اکتوبر میں ایف آئی اے نے اس وقت کام شروع کیا جب مختلف یورپی ممالک کے حکام کی جانب سے پاکستانی حکام سے رابطہ کیا گیا کہ پاکستان سے جی ایس پی پلس کا سہولت کا فائدہ اٹھا کر چاولوں کی سینکڑوں ایسی کھیپیں بھجوائی گئی ہیں جو مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں۔ بلکہ ان میں پھپوندی اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کی مقدار زیادہ پائی گئی ہے۔
یہ رپورٹیں وزیراعظم ہائوس تک پہنچیں۔ جس کے بعد وزارت داخلہ کو ایف آئی اے کے ذریعے اس اسکینڈل پر تحقیقات کرنے اور ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ بعد ازاں مختلف ممالک میں ناقص اور غیر معیاری چاولوں کی ایکسپورٹ کے حوالے سے ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔ ایف آئی اے نے غیرمعیاری چاولوں کی ایکسپورٹ کے سلسلے میں ان کھیپوں کے بر آمدکنندگان کا ریکارڈ کسٹمز اور دیگرمتعلقہ محکموں سے حاصل کیا۔ جس میں معلوم ہوا کہ اس عرصہ میں یہ کھیپیں ملک بھر کی 72 رائس ملز اور ان کے کلیئرنگ ایجنٹوں کی جانب سے بھیجی گئیں۔ جس پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا۔
ابتدائی طور پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد، کراچی، حیدآباد، کوئٹہ، پشاور اور کوہاٹ کی ڈائریکٹر ایف آئی اے زونز کو مراسلہ ارسال کیا گیا۔ مراسلے کے مطابق مختلف ممالک میں 72 رائس ملز کی جانب سے ایکسپورٹ کی گئی چاولوں کی کنسائمنٹس مسترد یا ضبط کی گئیں۔ یہ ہدایات بھی دی گئیں کہ ایکسپورٹرز اور کمپنیوں سے ریکارڈ حاصل کرکے انکوائری آفیسر کو بھجوایا جائے۔ ریکارڈ میں مسترد شدہ کھیپ کی ایل سی، پری لوڈنگ انسپیکشن سرٹیفکیٹ، کھیپ کے مسترد کیے جانے کا ریکارڈ، مسترد کھیپوں کے ٹیسٹ سرٹفیکیٹ حاصل کیے جائیں۔ مراسلے میں مسترد شدہ کنسائنمنٹس کو تلف کرنے کی تفصیل، کیا وہ واپس پاکستان لائی گئیں یا کسی دوسری منزل پر پہنچائی گئیں؟
مذکورہ کنسائمنٹس تیسرے ملک کو کیوں اور کیسے بھجوائیں گئیں اور وہ کن کن کو بھجوائیں گئیں، ان سب سمیت دیگر تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔ جبکہ وزارت فوڈ سیکورٹی، پلانٹ پروڈکشن اور کسی متعلقہ رائس مل کے خلاف انکوائری یا کیس رجسٹرڈ ہو تو اس کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔ بعد ازاں اس اسکینڈل پر اہم ٹاسک ایف آئی اے کراچی کو سونپا گیا۔ کیونکہ چالوں کی یہ کھیپیں کراچی کی بندرگاہوں سے کلیئر کرکے بھجوائی گئی تھیں۔
ایف آئی اے کو تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ان کھیپوں کی کسٹمز کلیئرنس کیلئے ایک اہم وفاقی ادارے پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ انتہائی اہم ہوتا ہے۔ جس کے بغیر کسٹمز حکام کھانے پینے کی اشیا اور اجناس کی درآمد اور برآمد کی جازت نہیں دیتے۔ جبکہ مذکورہ سرٹیفکیٹ ملز مالکان یا ان کے ایجنٹ ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کراچی کے ملیر آفس سے حاصل کرتے ہیں۔
مذکورہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے قبل ڈپارٹمنٹ پلانٹ اینڈ پروٹیکشن کے ماہرین اجناس کی کھیپوں کا تفصیلی معائنہ کرتے ہیں اور لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد ہی ان کو حفضان صحت کے مطابق قرار دے کر این او سی جاری کرتے ہیں۔ جس کے بعد کسٹمز حکام کھیپ کی کلیئرنس دیتے ہیں۔ تاہم تحقیقات میں معلوم ہوا کہ یورپی ممالک میں خراب نکلنے والی چالوں کی کھیپوں کے سرٹیفکیٹ پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے افسران نے کراچی سے غلط طریقے سے جاری کیے۔ جس میں بھاری رشوت وصولی اور لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ نظر انداز کیے جانے کے الزامات پر ڈائریکٹر ایف آئی اے کراچی نعمان صدیقی کی سربراہی میں تحقیقات جاری ہیں۔
اس سلسلے میں حتمی کارروائی میں گزشتہ روز ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کراچی میں باقاعدہ مقدمہ درج کرلیا گیا۔ جس مین پلانٹ اینڈ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کراچی کے 17 افسران کو بھی نامزد کیا گیا۔ جس میں ڈی جی طارق مروت بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 16 افسران ایسے ہیں جو سالانہ کانٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 10 ملزمان کو ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا ہے اور ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔ جبکہ ڈی جی اپنے بعض ساتھیوں سمیت منظر عام سے غائب ہوگئے ہیں۔ جن کی گرفتاری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ ایف آئی اے نے ڈی پی پی کے آفس پر چھاپہ مار کر متعلقہ ریکارڈ بھی تحویل میں لے لیا ہے۔ جس کی مزید چھان بین جا رہی ہے۔