عمران خان :
محکمہ کسٹمز سمیت متعلقہ ملکی ادارے، دبئی میں بیٹھ کر ملکی تاجروں کو اربوں روپے مالیت کی اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی اور ٹیکس چوری میں سہولت کاری دینے والے شفیق قریشی اور کاشف بھیا کا نیٹ ورک ختم نہ کرسکے۔ شفیق قریشی کے اپنے برادر نسبتی اسلم عینی کے ساتھ اختلافات کے بعد دبئی میں دو گروپ بن گئے۔ تاہم دونوں گروپوں سے تاجروں اور کمپنیوں کے کوائف استعمال کرکے کراچی میں سرگرم کاشف بھیا، معیز، وسیم موٹا، ٹیپو اور طارق پنڈی سمیت دیگر کلیئرنگ ایجنٹ کباڑ کی آڑ میں مسلسل قیمتی سامان منگوا کر کلیئر کروارہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک برس الفلاح کنٹینرز ٹرمنل، بحریہ آف ڈاک ٹرمنل سمیت اربوں روپے کی وارداتیں کرنے والا یہ مخصوص گروپ ایک بار پھر فعال ہوگیا ہے۔ کسٹمز انفورسمنٹ کے پاس اس نیٹ کے حوالے سے ایک درجن سے زائد اسکینڈلز زیر تفتیش ہیں جن میں الفلاح کنٹینرز ٹرمنل کے مالک شعیب صدیقی اپنے منیجر صدام، معیز دونوں بیٹوں ذیشان صدیقی اور فرحان صدیقی سمیت دیگر کلیئرنگ ایجنٹوں اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ نامزد ہیں۔ تاہم اب تک ان کے خلاف حتمی اور ٹھوس کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔حالیہ دنوں کروڑوں روپے کی واردات پکڑے جانے پر حساس ادارے نے ملزمان کو گرفتار کرکے پاکستان لانے کے لئے پرانی فائلوں کی چھان بین شروع کردی۔
اس نیٹ ورک کی تازہ ترین واردات کے حوالے سے کسٹمز ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل سے نکلنے والے خصوصی طور پر بیٹری اسکریپ کے کنٹینرز کی مانیٹرنگ کی گئی۔ بعد ازاں میسرزسنچری انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے کنسائنمنٹس کو آئی سی آئی پل ویسٹ وہارف روڈ پر روک کر ان کنٹینرز کے ہمراہ جانے والے میسرز عبدالعزیز ساول کلیئرنگ ایجنسی کے منیجر شیخ فرید سے اس کنسائمنٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔
منیجر نے گرین چینل سے کلیئر شدہ تین کنسائمنٹس کی گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) پیش کیں جن میں 8 کنٹینرز بیٹری اسکریپ کی معلومات درج تھیں۔ جبکہ موقع پر 7 کنٹینرز موجود تھے۔ جب منیجر سے آٹھویں کنٹینر کے بارے میں تفتیش کی گئی تو انکشاف ہوا کہ آٹھویں کنٹینر کو پہلے ہی نادرن بائی پاس پر واقع سنچری انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے گودام منتقل کردیا گیا تھا۔ اس نشاندہی پر موقع پر موجود 7 کنٹینرز کو کسٹمز ٹیم نے اپنی تحویل میں لے کر ان کنٹینرز کو اے ایس او ماری پور میں قائم گودام منتقل کیا۔ جبکہ منیجر کے ہمراہ اس کی نشاندہی پر نادرن بائی پاس پر واقع سنچری انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے گودام پر چھاپہ مارکر آٹھویں کنٹینر کو بھی اپنی تحویل میں لے کر ماری پور میں واقع کسٹمز کے گودام منتقل کردیا۔
مذکورہ آٹھوں کنٹینرز کی تفصیلی جانچ پڑتال کی اور بیٹری اسکریپ کی آڑ میں منگائی گئیں 6748 بیٹریز کو بیٹری اسکریپ سے الگ کر کے ان بیٹریز کے قابل استعمال ہونے یا نہ ہونے کی تشخیص کے لئے لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے بھیجا گیا۔ بعد ازاں لیبارٹری رپورٹ میں ان بیٹریوں کے قابل استعمال ہونے کی تصدیق ہو گئی۔ واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی امپورٹ پالیسی کے تحت اولڈ اینڈ یوزڈ بیٹری کی پاکستان امپورٹ کرنے پر پابندی ہے۔ اس لئے مذکورہ کمپنی نے ان بیٹریز کو بیٹری اسکریپ ظاہر کر کے کلیئر کرنے کی کوشش کی۔ کسٹمز حکام کے مطابق مطابق لیبارٹری رپورٹ کی روشنی میں 6748 بیٹریز قابل استعمال ہیں، جن کی مالیت 13 کروڑ 49 لاکھ 60 ہزار روپے بتائی گئی۔
مذکورہ تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ 13 کروڑ روپے کی واردات کے لئے کراچی انٹر نیشنل کنٹینرز ٹرمنل ( کے آئی سی ٹی ) پر گرین چینل کی سہولت کا غلط استعمال بھی کیا گیا۔ اس واردات میں پس پردہ دبئی میں سرگرم شفیق قریشی نیٹ ورک ملوث ہے، جس نے کباڑ کی آڑ میں کروڑوں روپے مالیت کی فعال بیٹریاں کراچی بھجوائیں۔ اس کھیپ کو کاشف بھیا نیٹ ورک کے ذریعے کراچی انٹر نیشنل کنٹینرز ٹرمنل پر تعینات کسٹمز افسران اور ٹرمینل انتظامیہ کی مدد سے کلیئر کروایا گیا۔
اس اسکینڈل پر کارروائی کے بعد درآمدکنندہ میسرزسنچری انجینئرنگ اورکلیئرنگ ایجنٹ عبدالعزیز ساول کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا۔ کیونکہ اس اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کے لئے بطاہر انہی کمپنیوں کے کوائف اور آئی ڈیز استعمال کی گئیں۔ شفیق قریشی جو کہ دبئی میں کمپنی قائم کرکے کام کر رہا ہے اس کے کراچی میں اس وقت بھی الیکٹرانک مارکیٹ صدر، موبائل مارکیٹ صدر اور گلستان جوہر میں کئی حوالہ ہنڈی کے ایجنٹ سرگرم ہیں جو کہ کراچی کے تاجروں سے ادائیگیاں وصول کرکے دبئی بھجواتے ہیں۔
کسٹمز ذرائع کے بقول شفیق قریشی، اسلم عینی، کاشف بھیا، معیز، کامران، ٹیپو، طارق پنڈی، وسیم موٹا سمیت دیگر اسمگلروں میں مشتمل یہ نیٹ ورک صرف گزشتہ ایک برس میں اربوں روپے مالیت کے جن بڑے اسکینڈلز میں ملوث رہا ہے، ان میں الفلاح کنٹینرز ٹرمنل سے کباڑ کی آڑ میں پر تعیش سامان کے درجنوں کنٹینرز کی کلیئرنس کروانا، بحریہ آف ڈاک ٹرمنل سے کیٹ لٹر سینڈ کی آڑ میں قیمتی سامان کی اسمگلنگ کے ساتھ ہی مختلف دیگر ٹرمنلز سے اربوں روپے کے الیکٹرانک آئٹمز، لیپ ٹاپ، کاسمیٹکس وغیرہ کی کلیئرنس شامل ہے۔
ان وارداتوں میں قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا تاہم بعد ازاں تینوں اسکینڈلز پر کسٹمز انفورسمنٹ کلکٹریٹ نے مقدمات قائم کئے لیکن ٹرمنل مالکان، منیجرز، ٹرانسپورٹرزاور کلیئرنگ ایجنٹوں سمیت اصل اسمگلروں کی گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی جاسکیں۔ تاہم حالیہ واردات کے بعد حساس ادارے نے اصل ملزمان کو دبئی سے گرفتار کرکے لانے کے لئے ان اسکینڈلز کی چھان بین شروع کردی ہے تاکہ ٹھوس شواہد پر مشتمل فائلیں تیار کرکے دبئی حکام کو دی جاسکیں۔ جبکہ دوسری جانب کسٹمز انفورسمنٹ کے شعبہ تفتیش کے افسران اب تک مضبوط کیس بنانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔