امریکی جیل ایف ایم سی کارسویل کے باہر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلیے مظاہرہ کیا جارہا ہے
امریکی جیل ایف ایم سی کارسویل کے باہر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلیے مظاہرہ کیا جارہا ہے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا ایک اور سنہری موقع

امت رپورٹ
امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے ایک بار پھر روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں۔ یہ امید اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن سبکدوش ہونے سے پہلے اپنا معافی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے پندرہ سو قیدیوں کی سزائیں معاف کی ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جنہیں کورونا کے دور میں جیلوں سے نکال کر گھروں میں نظر بند کیا گیا تھا۔ ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق جدید تاریخ میں ایک ہی دن اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کو معافی دینے کا یہ ایک ریکارڈ ہے۔ بائیڈن آنے والے دنوں میں مزید قیدیوں کی رہائی کا اعلان کریں گے۔

اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستانی وفد امریکہ میں موجود ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود کی قیادت میں یہ وفد وزیراعظم شہباز شریف نے بھیجا تھا۔ آٹھ دسمبر کو امریکہ پہنچنے والے تین رکنی وفد نے نہ صرف امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ بلکہ بارہ دسمبر کو جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے قریباً تین گھنٹے تک ملاقات بھی کی۔ امریکی حکام سے وفد کی ملاقاتوں کا بندوبست کرانے میں ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ نے اہم کردار ادا کیا۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کو لے کر بہت سنجیدہ ہیں۔ لیکن وزارت خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ توقعات کے مطابق اپنا رول ادا کرتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہ شکوہ عافیہ موومنٹ پاکستان کے ترجمان محمد ایوب نے بھی کیا ہے۔

’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر ان کا کہنا تھا ’’وزیراعظم شہباز شریف نے ہمارے مطالبے پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے امریکی صدر بائیڈن کو باقاعدہ خط لکھا۔ اس سے وزیراعظم کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت کی دیگر مشینری اس سلسلے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ مثلاً ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے لیے امریکہ جانے والے حکومتی وفد میں ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کا نام بھی شامل تھا۔ لیکن وزارت خارجہ انہیں امریکی ویزہ دلانے میں ناکام رہی۔ یوں ڈاکٹر فوزیہ امریکہ نہیں جا سکیں۔ حالانکہ بہت پہلے سے طے تھا کہ وفد میں ڈاکٹر فوزیہ بھی شامل ہوں گی۔

واضح رہے کہ سینئٹر طلحہ محمود کی قیادت میں امریکہ روانہ ہونے والے وفد کے دیگر ارکان میں سینیٹر بشریٰ انجم بٹ اور ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی شامل ہیں۔ وفد نے جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی۔ جبکہ امریکی کانگریس اور محکمہ خارجہ کے حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں سینیٹر طلحہ محمود نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکی صدر جوبائیڈن اپنی سبکدوشی سے قبل ڈاکٹر عافیہ کی سزا معاف کر دیں گے۔ سینیٹر طلحہ محمود کے مطابق صدر بائیڈن کے پاس ساٹھ سے زیادہ معافی کی درخواستیں موجود ہیں۔ جس میں ڈاکٹر عافیہ کی درخواست بھی شامل ہے۔ بائیڈن کے سبکدوش ہونے کے بعد بیس جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

عافیہ موومنٹ پاکستان کے ترجمان محمد ایوب کا مزید کہنا تھا، ڈاکٹر فوزیہ کے ویزے کے لیے کراچی کے امریکی قونصل خانے میں وہ خود ان کا پاسپورٹ جمع کرا کے آئے تھے۔ اس کے ساتھ وزارت خارجہ کا خط منسلک تھا، جس میں سینیٹر طلحہ محمود، ڈاکٹر اقبال آفریدی اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ویزہ دینے کا کہا گیا تھا۔ ان میں سے دو لوگوں سینیٹر طلحہ محمود اور ڈاکٹر اقبال آفریدی کو تو ویزہ مل گیا۔ لیکن ڈاکٹر فوزیہ کو ویزہ نہیں دیا گیا۔ وزارت خارجہ کو چاہیے تھا کہ ویزہ مسترد کرنے کی وجوہات معلوم کرتی۔ لیکن اس نے اپنی یہ ذمے داری پوری نہیں کی۔ اس سے قبل وفد میں سینیٹر عرفان صدیقی کا نام شامل تھا۔ تاہم انہوں نے اپنی اہلیہ کی بیماری کے سبب جانے سے معذرت کر لی۔ ان کے جگہ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نام دیا گیا تھا۔

محمد ایوب کے بقول ویزہ نہ ملنے پر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا موقف ہے کہ ان کا امریکہ جانا اتنا اہم نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی واپسی ہو جائے۔ ان کے لیے اس سے بڑھ کر اہم بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ محمد ایوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی صدر کو خط لکھ کر وزیراعظم شہباز شریف نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ اس کے بعد وزارت خارجہ کو چاہیے تھا کہ وہ امریکہ بھیجے جانے والے وفد میں تگڑے لوگ شامل کرتی، جو امریکی حکام سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں نتیجہ خیز مذاکرات کرنے کی اتھارٹی رکھتے۔

وفد کی قیادت اسحاق ڈار کو کرنی چاہیے تھی جو ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی ہیں۔ تاکہ امریکی حکام کو حکومت پاکستان کی سنجیدگی کا احساس ہوتا۔ پھر یہ کہ جب پاکستانی وفد امریکی حکام سے ملاقاتیں کر رہا تھا تو امریکہ میں پاکستانی سفیر کو ان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی سفیر گزشتہ ہفتے کانگریس کی راہداریوں کے چکر لگاتے رہے۔ تاکہ ارکان کانگریس کو باور کرایا جا سکے کہ پاکستان میں جمہوری اقدار کا پورا احترام کیا جارہا ہے۔ تاہم ان کے پاس امریکی حکام سے ملاقات کرنے والے پاکستانی وفد کے ساتھ جانے کا وقت نہیں تھا۔

محمد ایوب کے بقول وزیراعظم شہباز شریف نے نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے خط لکھا۔ بلکہ جب یہ معاملہ زیربحث آیا کہ پاکستانی وفد کے سفر کے اخراجات کون اٹھائے گا تو وزیراعظم نے کہا کہ وفد سرکاری اخراجات پر امریکہ جائے گا۔ اصل مسئلہ وزارت خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کے رویے کا ہے۔ وزارت خارجہ اور پاکستانی سفارتخانے کو بھی وزیراعظم کی طرح اس معاملے میں دلچسپی دکھانی چاہیے۔

ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے یہ سنہری موقع ہے۔ صدر بائیڈن جانے سے پہلے ریکارڈ قیدیوں کی سزائیں معاف کر رہے ہیں۔ بیس جنوری تک ان کے پاس یہ اختیارات ہیں۔ وہ دوسرے مرحلے میں انیس دسمبر کو مزید قیدیوں کی سزائیں معاف کرنے کا اعلان کرنے جارہے ہیں۔ اگر پاکستانی وزارت خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ ایکٹِو ہو جائے تو صدارتی معافی کے دوسرے مرحلے میں ڈاکٹر عافیہ کا نام بھی آسکتا ہے۔ ایک سوال پر محمد ایوب نے بتایا کہ ڈاکٹر فوزیہ سے عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ امریکی حکام سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں کرانے میں بھی کلائیو اسمتھ نے رول ادا کیا۔ وہ ان ملاقاتوں میں وفد کے ہمراہ تھے۔

ادھر اتوار کے روز ٹیکساس میں ایف ایم سی کارسویل جیل کے باہر، جہاں ڈاکٹر عافیہ قید ہیں، ایک بڑا مظاہرہ ہوا۔ اس موقع پر انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں سے وابستہ مظاہرین نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی فوری رہائی کا اعلان کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔