صوبائی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بلدیاتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا، فائل فوٹو 
 صوبائی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بلدیاتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا، فائل فوٹو 

سندھ کے بلدیاتی اداروں کا برا حال،30 ہزار سے زائد جعلی بھرتیاں

نمائندہ امت:
سندھ کے بلدیاتی اداروں میں ہونے والی کرپشن کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔ جس پر خود پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما اور صوبائی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ نثار احمد کھوڑو بھی پھٹ پڑے۔ انہوں نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھانڈا پھوڑتے ہوئے تمام بلدیاتی اداروں پر عدم اعتماد ظاہر کردیا۔

جبکہ بلدیاتی اداروں کو حکومت سندھ کی جانب سے ملنے والی ایک کھرب 60 ارب روپے کی سالانہ گرانٹ کے تمام اخراجات کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔ حکومت کی جانب سے برتھ سرٹیفکیٹس پر عائد فیس پانچ برس کیلئے ختم کرکے مفت میں جاری کرنے کے اعلان کے باوجود برتھ سرٹیفکیٹ کے اجرا پر بروکرز مافیا کا راج برقرار ہے۔ اس کے علاوہ 2012ء سے بلدیاتی اداروں میں ہونے والی جعلی بھرتیوں کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے۔ جس کے باعث جعلی بھرتی ہونے والوں کی تعداد تیس ہزار سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ علاوہ ازیں سندھ کے بلدیاتی اداروں میں متعلقہ چیئرمینز کے ساتھ حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی کو بھی حصہ دار بنایا گیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ایک ہفتہ قبل سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی زیر صدارت منعقدہ پی اے سی کے اجلاس میں حیدرآباد ڈویژن کی تمام ضلع کونسلز اور ٹائون کمیٹیز کی 2018ء سے 2020ء تک کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ جس میں کمیٹی کے اراکین قاسم سومرو اور دیگر اراکین سمیت حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے میونسپل کمشنرز، ٹائون آفیسرز، چیف میونسپل آفیسرز سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔

مذکورہ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ بلدیاتی ادارے ٹینڈرز کے علاوہ کوٹیشنز اور اشتہارات دیئے بغیر این آئی ٹی کرتے ہیں۔ اجلاس میں تمام بلدیاتی اداروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئندہ اس طریقے سے کسی بھی قسم کی خریداری نہیں کریں گے۔ اجلاس میں تمام بلدیاتی کونسلز کو بجٹ بک بنانے اور یومیہ اجرت پر ملازمین بھرتی کرنے کیلئے سلیکشن کمیٹیاں تشکیل دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔

اجلاس میں جب ٹائون کمیٹی بھٹ شاہ کے آڈٹ پیراز کی بات آئی تو اس پر چیئرمین پی اے سی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 13 لاکھ روپے کی رقم سے سلائی مشینیں خریدی گئی ہیں۔ وہ کونسی سلائی مشین ہے جو 95 ہزار میں ملتی ہے اور ایسا کون سا ہینڈ پمپ ہے، جو 95 ہزار میں نصب ہوتا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کے احکامات جاری کرتے ہوئے اس وقت کے ٹائون افسر کو معطل کرنے کی بھی ہدایت کی۔ ج

بکہ بھٹ شاہ میں 29 لاکھ روپے کی لاگت سے قبرستان کی دیوار کی تعمیر کیلئے ٹینڈر جاری کرنے کے بجائے 95-95 ہزار روپے کی کوٹیشن جاری کرنے کے معاملے کو بھی مشکوک قرار دیا اور اس کی بھی ایڈیشنل چیف سیکریٹری بلدیات کو تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔

یہ انکشاف بھی ہوا کہ مذکورہ ٹائون کمیٹی کی جانب سے ٹھیکیداروں سے سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیے گئے 45 لاکھ روپے بھی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے۔ اس معاملے کا بھی انہوں نے نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ افسر کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس موقع پر چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ بلدیاتی اداروں کو سالانہ ایک کھرب 60 ارب روپے سے زائد کی فنڈنگ کر رہی ہے۔ مگر فراہم کردہ فنڈنگ سے ترقی کیوں نہیں نظر آرہی ہے۔

صوبہ بھر میں لوکل کائونسل کو فراہم کی جانے والی مذکورہ رقم میں سے اگر پچاس فیصد رقم ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوتی ہے تو باقی پچاس فیصد رقم سے ترقی ہونی چاہیے تھی، جو نظر نہیں آرہی۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سرکاری محکموں اور اداروں میں عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم میں خوردبرد اور بے ضابطگیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ عوام کی رقم کو عوام کی بہتری کیلئے خرچ ہونا چاہیے۔ جس محکمہ میں بھی بے ضابطگیاں ہوں گی، وہاں پبلک اکائونٹس کمیٹی ایکشن لے گی۔

دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دن پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ٹائون کمیٹی بھٹ شاہ کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ دیکھا جائے تو سندھ بھر کے تمام بلدیاتی اداروں اور لوکل کائونسلز کی حالت ایسی ہی ہے۔ تقریباً تمام بلدیاتی اداروں میں ٹینڈرز جاری کرنے کے بجائے کوٹیشنز کے ذریعے ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں، جس کے باعث وہ ٹھیکے من پسند افراد کو ہی ملتے ہیں اور کہیں کام نظر نہیں آتا۔ یہ سارا دھندا ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ جہاں تک ٹائون کمیٹیز اور میونسپل کمیٹیز کی بات ہے تو اس میں ہونے والی کرپشن میں صرف متعلقہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین یا افسران ملوث نہیں۔ بلکہ سندھ میں تحصیل سطح پر غیر اعلانیہ طور پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کو بھی اس میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بلدیاتی اداروں کو آکٹرائے و ضلع ٹیکس کے متبادل فنڈز کی مد میں جو رقم ملتی ہے۔ وہ اب ایک کھرب 60 ارب روپے سے بڑھ کر ایک ارب 85 کروڑ روپے ہو چکی ہے۔ جن میں سے کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، نواب شاہ، میرپور خاص کے میونسپل کارپوریشنز، 23 ڈسٹرکٹ کونسلز اور دیگر میونسپل کمیٹیاں اور ٹائون کمیٹیز کے علاوہ ہر ضلع کائونسل کی یونین کونسل کو ماہانہ 10 لاکھ روپے اور ریجنل کمیٹی کو 12 لاکھ روپے جاری ہوتے ہیں۔ جن میں سے آدھی رقم ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی پر ظاہر کی جاتی ہے۔ باقی رقم سے یو سی سطح پر سیوریج سسٹم، اسٹریٹ لائٹس اور دیگر اخراجات کی مد میں ظاہر کرکے خانہ پری کی جاتی ہے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومت سندھ نے برتھ سرٹیفکیٹ پر عائد فیس معاف کرکے آئندہ پانچ سال کیلئے تمام برتھ سرٹیفکیٹس مفت جاری کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ لیکن وہ اعلان بھی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اس وقت بھی یوسیز سے جو برتھ سرٹیفکیٹ جاری ہوتے ہیں۔ اس پر بروکرز مافیا کا راج ہے۔ جو بلک میں سیٹنگ والی یو سی سے برتھ سرٹیفکیٹ بھاری رقم کے عوض جاری کراتے ہیں۔

بلدیاتی اداروں میں سب سے بڑا مسئلہ جعلی بھرتیوں کا رہا ہے۔ 2012ء میں بلدیاتی اداروں میں جو بھرتیاں کی گئیں، اس میں جعلسازی کا انکشاف ہونے کے بعد 2013ء میں گریڈ 19 کے ایک افسر کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس انکوائری کے سلسلے میں کے ایم سی اور کراچی کی تمام ٹائون انتظامیہ نے کمیٹی کو اس حوالے سے ریکارڈ دینے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ جبکہ سندھ کے باقی بلدیاتی اداروں میں جعلی بھرتیوں کے متعلق جو انکوائری ہوئی تھی وہ 13 ہزار ظاہر ہوئی تھی۔ ان جعلی بھرتیوں کو ختم کرنے کے بجائے دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے اور ابھی تک 2012ء کی تاریخوں میں جعلی بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ جس کے باعث جعلسازی کے ذریعے بھرتی ہونے والے افراد کی تعداد 30 ہزار سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل جب ضلعی انتظامیہ کے افسران کے پاس بلدیاتی اداروں کے ایڈمنسٹریٹرز کا چارج تھا۔ اس وقت بھی ان کی ملی بھگت سے جعلی بھرتیاں جاری رہیں اور جہاں تک ان جعلی بھرتیوں کا تعلق ہے تو اس کا پردہ چاک کرنا بہت آسان ہے۔ صرف یہ دیکھا جائے کہ جو ملازم بھرتی ہو رہا ہے، اس کا بینک اکائونٹ کب کھلا۔ کیونکہ وہ بھرتیاں 2012ء کی ظاہر کی جارہی ہیں۔ اور جو بھی جعلی بھرتیاں ہورہی ہیں ان میں اکثریت متعلقہ چیئرمینز اور افسران کے رشتہ داروں کی ہے۔ جعلی بھرتیوں کے لئے ملی بھگت سے یہ طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ ایک ملازم کا تبادلہ کرکے اسے کسی اور بلدیاتی ادارے میں تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے۔ جس کی تصدیق کیے بغیر ملی بھگت سے انہیں اس ادارے میں جوائننگ دی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔