فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی کے 150 سینما ماضی کا قصہ بن گئے

محمد نعمان :
ملک بھر میں سب سے زیادہ سینما گھر والے شہر کراچی میں اب چند سینما گھر باقی بچے ہیں۔ یہ چند بھی دم توڑ رہے ہیں۔ روشنی کے شہر میں کبھی ڈیڑھ سو سے زائد بڑی اسکرینیں ہوا کرتی تھیں۔ سینما گھروں کی تباہی میں حکومت کی عدم دلچسپی اور معیاری فلموں کا نہ بننا بھی ایک اہم سبب ہے۔ علاوہ ازیں نیف ڈیک کا قیام نہ ہونا اور کے الیکٹرک کے بھاری بل بھی بڑی وجہ ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت نے سینما مالکان سے کبھی ملاقات نہیں کی۔ الگ الگ سینسر بورڈز نے اپنے صوبوں کی فلم کی اجازت دے کر دیگر صوبوں میں بننے والی فلموں کو نظر انداز کردیا۔ ملیر، کورنگی سمیت چند علاقوں میں باقی بچ جانے والے سینما گھر بھی عدم توجہ سے تباہی کے دہانے پر ہیں۔

ایم جناح روڈ پرواقع تین سینما پرنس، کیپری اور نشاط شہر کراچی کے معروف سینما گھروں میں شمار ہوتے تھے۔ اب پرنس سینما کی جگہ شاپنگ سینٹر تعمیر ہوگیا اور نشاط کے بعد کیپری سینما بھی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ لانڈھی اور کورنگی میں شیش محل، غالب، لالہ زار، نرگس اور مہتاب ہوا کرتے تھے۔ اب ان سینما گھروں کے بجائے چائنا کٹنگ کرکے آبادی قائم کردی گئی۔ جبکہ کچھ اراضی ضلعی انتظامیہ و شہری حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لی ہے۔ کورنگی 4 نمبر پر ایک سینما گھر ہے جس پر کوئی نام آویزاں نہیں۔ ملیر میں پکاڈلی، کیسینو، گلستان، گلشن، سنگیت اور نفیس سینما ہوا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ ناظم آباد میں فردوس، نیرنگ۔ لیاقت آباد میں بدر، نگینہ، میٹرو، شہزاد، پیلس، لبرٹی، صبا، شیریں، چمن سنیما، کرن سنیما ہوتے تھے۔ پاک کالونی میں چاندنی، کراؤن سنیما، ڈیلکس، لبرٹی، نایاب، مسرت، ریجنٹ، ریلیکس، شالیمار، دلشاد، ڈیلائٹ، رنگ محل، راج محل۔ نیپئر روڈ پر راکسی، کمار، سپر، نگار، نور محل، قسمت، سوسائٹی، فلمستان، ناولٹی، ارم، اوپیرا، عرشی، گلیکسی، امبر، ہالی وڈ، صنم، خیام سنیما موجود تھے۔ مارسٹن روڈ (موجودہ وحید مراد روڈ) پر واقع گوڈین، افشاں، نشیمن، ایروز، جوبلی، ریوالی، کوہ نور، قیصر نامی سینما گھر تھے۔ صدر کے علاقے میں اوڈین، ریگل، پیراڈائز، پیلس، ریکس، ریو، کیپیٹل۔ گارڈن روڈ پر بمبینو، لیرک، اسٹار، اسکالا، رینو۔ ایم اے جناح روڈ پر پلازہ، تاج محل، لائٹ ہاؤس، ناز، میجسٹک جیسے دلکش سینما گھر ہوتے تھے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بغیر چھت والے سینما بھی قائم تھے۔ جہاں شام کے بعد ہی فلم دکھائی جاتی تھی۔ یہ سینما گھر نسبتاً بہت سستے تھے۔

ایک وقت تھا جب کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر 15 سے زائد سینما گھر ہوتے تھے۔ آج وہاں شاپنگ سینٹرز یا پھر کوئی دوسری کمرشل عمارت بن گئی ہے۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے کیے گئے سروے میں معلوم ہوا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں 150 سے زائد سینما گھر ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلا سینما اسٹار اور جوبلی تھا جو ایم اے جناح روڈ پر قائم تھا۔ اسٹار سینما کی ملکیت اور نام کئی مرتبہ تبدیل ہوئے۔

اسٹار کے بعد اس کا نام رنجیت اور پھر میجسٹک سینما رکھا گیا۔ اسٹار سینما کے بعد کراؤن، پیلس، پکچر ہاؤس، کیپٹل، پیرا ڈائز، لٹز، لائٹ ہاؤس، بلٹرز، تاج محل، رادھا (ناز)، مے فیئر، ریو، ریکس، اوڈین، ریگل، قسمت، نگار، کمار ٹاکیز، راکسی، سپر ٹاکیز اور نور محل سینما کے نام شامل تھے۔ پاکستان میں پہلی عیدالاضحیٰ 24 اکتوبر 1947ء کو منائی گئی اور اس دوران کراچی کے 17 سینما گھروں میں اردو، انگریزی، ہندی، پنجابی اور بنگالی زبان کے ساتھ فلم کی نمائش کی گئی۔

اس دور میں 17 سینما گھروں میں لگنے والی مختلف فلموں نے خوب بزنس کیا۔ اس کے بعد شہر کے دیگر علاقوں میں سینما گھر بننا شروع ہوئے۔ 25 دسمبر 1947ء کوایم اے جناح روڈ پر نشاط سینما کا افتتاح بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں ہدایتکار اوجھا کی فلم ’ڈولی‘ سے ہوا تھا۔ سن 1968ء میں مکمل ہونے والے کیپری سینما گھرکا افتتاح اس وقت کے کمشنر کراچی نے کیا تھا اور جنگ عظیم کے پس منظر میں بنائی گئی ’دی سیکریٹ انوویشن‘ پہلی فلم تھی، جو 18 جولائی 1968ء کو نمائش کیلئے پیش کی گئی۔

ابتدا میں انگریزی فلموں کیلئے کیپری سینما کے باکس آفس پر پاکستانی فلموں نے بھی شاندار بزنس کیا۔ صاعقہ پہلی پاکستان فلم تھی، جو کیپری پر لگی۔ پاکستانی فلم مہمان نے کیپری سینما پر گولڈن جوبلی (مسلسل نمائش کے 50 ہفتے) مکمل کیے۔ 800 سیٹوں کے حامل کیپری سینما کے مرکزی ہال میں 500، جبکہ گیلری میں 300 نشستیں تھیں۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں 150 سے زائد سینما گھر حکومتی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ پہلے وی سی آر، پھر ڈی وی ڈی پلیئر، سی ڈی پلیئر کے استعمال نے شہریوں کا رجحان کم کردیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سینما گھر ڈیجیٹل میں تبدیل ہوتے گئے۔

90 کی دہائی میں جہاں پہلے جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سینما گھروں کے باہر عوام کا رش ہوتا تھا۔ وقت بدلنے کے ساتھ سینما گھروں میں ایک وقت میں 4 سے زائد فلمیں دکھائی جانے لگیں۔ کلفٹن، صدر اور دیگر علاقوں میں بڑی اسکرین کے سینما گھر بنائے گئے۔ جہاں ایک دن میں مختلف فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ 2012ء میں کراچی کا پرنس سینما سب سے پہلے زوال کے قریب پہنچا۔ ایک زمانے میں ایم اے جناح روڈ پر واقع پرنس سینما میں لوگوں کا رش دیکھنے میں آتا تھا۔ یہاں اردو، انگریزی اور ہندی فلموں کی بھرمار ہوا کرتی تھی۔ رش بڑنے کے بعد پرنس سینما میں فلمیں دیکھنے کا وقت بھی بڑھادیا گیا۔

2012ء میں کچھ مشتعل مظاہرین نے پرنس سینما کو نذر آتش کردیا۔ جس کے بعد یہ سینما کبھی دوبارہ وجود میں نہیں آیا۔ پرنس سینما کی بربادی کے بعد شہر میں خوف کی فضا قائم ہوگئی تھی۔ پرنس سینما کے بھوت بنگلے میں تبدیل ہونے کے بعد دیگر سینما گھروں سے بھی رونقیں ختم ہوتی رہیں۔ سینما مالکان نے اس معاملے پر سندھ حکومت اور دیگر سے بات چیت کی۔ لیکن کسی نے بھی انہیں کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔

’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق کراچی کے سینما گھروں پر زیادہ نظریں بلڈرز نے گاڑ رکھی تھیں۔ سینما گھر ایک مخصوص مشن کے تحت تباہ کیے گئے، تاکہ یہاں بڑی بڑی عمارتیں یا شاپنگ سینٹرز بن سکیں۔ اسٹار سینما اور جوبلی ختم ہونے کے بعد شاپنگ پلازے بنا دیئے گئے۔ ’’امت‘‘ کو ایک سینما مالک نے بتایا کہ 1970ء کی دہائی میں نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (نیف ڈیک) کا ایک ادارہ بنایا گیا تھا جو فلم انڈسٹریز کے مسائل حل کریگا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ کچھ ماہ بعد ہی بند ہوگیا۔

اس کے بعد کئی حکومتیں آئیں اور فلم انڈسٹری و سینیما مالکان نے بہت زور دیا کہ نیف ڈیک ادارہ بحال کیا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات الگ ہوگئے اور اسی طرح الگ الگ سینسر بورڈ بن گئے۔ جو فلمیں سندھ میں ریلیز ہوتی تھیں۔ انہیں پنجاب بورڈ اور دیگر صوبوں کے سینسر بورڈ اجازت نہیں دیتے تھے۔ جس سے فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ سینما گھروں کی بحالی کیلیے کوئی اقدامات کرے۔ لیکن اس نے آج تک کوئی بجٹ مختص ہی نہیں کیا۔ اب کراچی میں 150 سینما گھروں کے بجائے محض 12 کے قریب سینما باقی رہ گئے ہیں اور یہ بھی تقریباً زوال کے قریب ہیں۔ کے الیکٹرک نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ جن سینما گھروں میں پہلے 18 ہزار کا بل آتا تھا۔ اب وہاں 8 لاکھ روپے کا بل آرہا ہے۔ سینما گھر ویران ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔