امت رپورٹ:
شکوک و شبہات کے سائے میں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
’’چوروں کے ساتھ بات نہیں کروں گا‘‘ کا نعرہ لگانے والے انقلابی عمران خان نے اپنی مذاکراتی ٹیم کو نئی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے ٹائم فریم مقرر کیا جائے۔ دراصل بانی پی ٹی آئی جلد از جلد جیل سے رہائی کے خواہش مند ہیں۔ تاکہ آنے والے دنوں کے خوفناک سیناریو سے خود کو بچاسکیں۔ جیل میں لگنے والی عدالت کے موقع پر میڈیا کے جو لوگ عمران خان سے ملاقات کرتے ہیں۔
ان میں سے بیشتر نے بتایا ہے کہ عمران خان کی باڈی لینگویج اب پہلے سے بہت مختلف ہوچکی ہے۔ تکبر اور اکڑ وہ نہیں دکھائی دے رہی، جو چند ماہ پہلے تک تھی۔ عمران خان سے وقتاً فوقتاً ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی رہنمائوں سے رابطے میں رہنے والے ایک اہم ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان پہلے ہی اس بات سے خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کو فوجی تحویل میں نہ دے دیا جائے۔
فیض حمید کے خلاف فرد جرم عائد ہونے کے بعد سے ان کے اس خوف میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ فوجی تحویل میں دیئے جانے کے بعد یہ ’’موجیں‘‘ ختم ہوجائیں گی، جو انہیں اڈیالہ جیل میں میسر ہیں۔ ساتھ ہی 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کا الزام ثابت ہوگیا تو طویل سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس میں اپیلوں میں اتنی آسانی سے ریلیف ملنا مشکل ہے۔ عمران خان کو ادراک ہے کہ دوران سماعت فیض حمید کی جانب سے ایسے انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔ جو انہیں فوجی تحویل میں دیئے جانے کا ٹھوس جواز فراہم کردیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ ’’چوروں کی حکومت‘‘ سے وہ نہ صرف این آر او لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ فیض حمید کا ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے حکومت کے ساتھ ایسی ڈیل طے پا جائے، جو ان کی رہائی کا راستہ ہموار کر دے۔ حکومت کے ساتھ این آر او کے تحت ہونے والے مذاکرات میں پہلا بنیادی مطالبہ عمران خان نے اپنی رہائی کا ہی رکھوایا ہے۔ ساتھ میں دیگر پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی تھیں کہ وہ صرف اپنی رہائی کے لیے بے تاب ہیں۔
اہم ذریعے کے مطابق آج کے حکمرانوں اور ماضی کی اپوزیشن کے لیے ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ کا نعرہ لگانے والے عمران خان آج خود این آر او کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان پر این آر او لینے کا الزام نہ آئے تاکہ سیاسی ساکھ متاثر نہ ہو اور ماضی کی بڑھکیں گلے کا طوق نہ بن جائیں۔ لہٰذا وہ این آر او لینے کے ساتھ ایسی فیس سیونگ بھی چاہتے ہیں کہ باہر آکر بڑھک لگاسکیں کہ میں نے این آر او نہیں لیا۔ بلکہ حکومت نے مجبور ہوکر رہا کیا۔
ذریعے کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت میں پیشی کے موقع پر وہ میڈیا کے ساتھ بات چیت میں اب بھی جو بڑھکیں مار رہے ہیں، وہ ڈھکوسلا ہیں۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ جیل کی زندگی ان کے لیے اب ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ خاص طور پر فیض حمید کا نیٹ ورک پکڑے جانے کے بعد سے جیل کے دن مشکل اور راتیں کٹھن ہوچکی ہیں۔ ایسے میں فیض حمید پر عائد فرد جرم نے ان کی رہی سہی اکڑ بھی ختم کردی ہے۔
ملاقات کرنے والے پارٹی رہنمائوں نے بھی انہیں باور کرایا ہے کہ فیض حمید کے ٹرائل کا فیصلہ ہونے سے پہلے اگر ان کی رہائی ممکن نہیںہوتی تو پھر ان کے لیے مزید کٹھن دن آنے والے ہیں۔ ان مشوروں کی روشنی میں ہی بانی پی ٹی آئی نے ’’فارم سینتالیس‘‘ والی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور مذاکراتی عمل شروع کرنے پر رضامند ہوئے۔ لیکن انہیں خوف ہے کہ حکومت مذاکرات کے عمل کو لٹکاکر طویل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اور بات چیت کے عمل کو فیض حمید کے ٹرائل کے مکمل ہونے تک لے جانا چاہتی ہے۔ اس حکومتی ارادے کو بھانپتے ہوئے عمران خان نے منگل کے روز ملاقات کرنے والے پارٹی رہنمائوں کو خصوصی تاکید کی کہ وہ ہر صورت حکومت سے مذاکرات سے متعلق ٹائم فریم لیں۔
ذریعے کے مطابق عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے سے متعلق امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی تشویش پر عمران خان کی کچھ ڈھارس بندھی ہے۔ لیکن ان کا یہ خوف تاحال برقرار ہے کہ کہیں انہیں فوجی تحویل میں نہ دے دیا جائے۔
ادھر اسلام آباد میں بیٹھے ذرائع کا کہنا ہے کہ 2 جنوری کو جب مذاکراتی عمل کا دوسرا دور شروع ہوگا تو پی ٹی آئی جہاں اپنے مطالبات رکھے گی۔ اس کے تناظر میں حکومت بھی اپنے مطالبات کو ترتیب دے گی۔ یہ ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے جائیں۔ خاص طور پر عمران خان کی رہائی کے معاملے پر سمجھوتہ آسان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
ان ذرائع کے بقول اگر ایسا مرحلہ آ بھی گیا تو شاید عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ والی رہائش گاہ منتقل کرکے اسے سب جیل کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ جیسے وہاں اس سے پہلے بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی کو رکھا گیا تھا۔ تاہم اس کے لیے مقتدرہ کا گرین سگنل ضروری ہے۔ تاہم اس این آر او کے لیے عمران خان کو بہت سی یقین دہانیاں کرانی ہوں گی۔ جس میں ملک میں انتشار پھیلانے سے متعلق بیان بازی روکنا، بیرون ملک سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا ٹیم کو کنٹرول کرنا اور سیاسی استحکام لانے کے لیے مزید کسی ریلی یا دھرنے کا اعلان نہ کرنا جیسی شرائط سرفہرست ہوں گی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب مذاکرات کے نام پر شروع کی جانے والی ڈیل پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔ جس پر بے یقینی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔