سید نبیل اختر:
پی آئی اے کی نجکاری سے قبل اس کی تباہی و بربادی کے ایسے قصے سامنے آرہے ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ قومی ایئرلائن کو محض کرپشن کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور اب وہ اسکریپ ہونے کو ہے۔ پی آئی اے کے اعلیٰ افسران کے بقول 5 کروڑ آبادی والے ملک کے پاس 400 جہاز ہیں۔ جبکہ پاکستان میں قومی ایئرلائن سمیت تمام نجی کمپنیوں کے طیارے بھی شامل کر لیے جائیں تو ان کی تعداد 50 سے زائد نہیں ہوگی۔
ایک انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ پی آئی اے نے جن غیر ملکی کمپنیوں سے لیزنگ طیاروں کے معاہدے کیے۔ ان میں جان بوجھ کر ایسی شرائط تسلیم کی گئیں جس سے پی آئی اے کو اربوں روپے کا نقصان معاہدے پر دستخط ہوتے وقت ہی طے تھا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ قومی ایئرلائن کے پاس لیزنگ طیارے غیر ملکی کمپنیوں سے منافع کمانے کیلئے خریدے گئے تھے۔ لیکن ہر ایک لیز طیارہ لاکھوں ڈالرز کا نقصان پہنچاکر اب گرائونڈ ہورہا ہے۔
پی آئی اے کے انجینئرز کی تنظیم سوسائٹی آف ایئر کرافٹ انجینئرز آف پاکستان (سیپ) کے صدر عبداللہ جدون کا بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھیجا گیا خط ہوشربا انکشافات سے بھرا ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ پی آئی اے کی سابق انتظامیہ نے دو طیاروں اے پی، بی ایل وائی اور اے پی، بی ایل زیڈ کی جکارتہ سے وطن واپسی میں بدانتظامی اور مبینہ کرپشن کی۔
خط میں کہا گیا کہ ’ہم آپ کی توجہ سابقہ انتظامیہ کے اقدامات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ جس میں مذکورہ دو طیارے لیزنگ کمپنی کو واپس لوٹانے کیلئے 26 ماہ تک گرائونڈ رکھے گئے۔ اس طویل گرائونڈ رہنے والے عرصے کیلئے سابق انتظامیہ ذمہ دار ہے۔ کیونکہ اس نے معاہدے کے مطابق طیارے کی واپسی کی شرائط کا خیال نہیں رکھا۔ نتیجتاً منصوبہ بندی نہ ہونے اور بدانتظامی کی وجہ سے طیارے پر لاکھوں ڈالرز کی ادائیگیاں کی جاتی رہیں۔ اور اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد دونوں طیارے وطن واپس پہنچا دییے گئے۔ طیاروں کو جکارتہ بھجواتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ ان دو طیاروں کے فلیٹ سے نکل جانے پر فلیٹ آپریشن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ نتیجتاً فلیٹ آپریشن میں خلل پیدا ہوا۔ جس سے ریونیو میں بھی کمی آئی۔ بعض پروازیں منسوخ کرنا پڑیں اور شیڈول کو ازسرنو ترتیب دینا پڑا‘۔
خط میں انکشاف کیا گیا کہ جکارتہ سے اربوں روپے کی ادائیگی کرکے وطن واپس پہنچنے والے ان دو طیاروں کی پاکستان آمد کے وقت نگراں حکومت کے سامنے ظاہر کیا گیا کہ پی آئی اے میں نئے ایئر بس اے تھری ٹوئنٹی طیارے شامل کیے گئے ہیں۔ جس کے شواہد پی آئی اے یوٹیوب کے آفیشل اکائونٹس پر موجود ویڈیوز ہیں۔ خط میں یوٹیوب کے دو لنکس بھی ظاہر کیے گئے۔ جن میں طیاروں کے افتتاح کیلئے وزیراعظم کے مشیر برائے ایسوسی ایشن ایئر مارشل (ریٹائرڈ) فرحت حسین خان سے فیتے کٹوائے گئے تھے۔
خط میں کہا گیا کہ طیاروں کی اربوں روپے نقصان کے بعد واپسی پر بھی کروڑوں کے اخراجات کیے گئے۔ جس میں کرپشن کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیپ کے صدر عبداللہ جدون نے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرائیں۔ تاکہ بے ضابطگیاں اور مالی نقصان سامنے آسکے۔ انجینئرز نے خط میں واضح کیا کہ یہ خط محض قومی ایئرلائن اور پاکستانی قوم کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ تاکہ پی آئی اے کی بحالی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات میں مذکورہ غلطیاں دہرائی نہ جائیں اور ایسے عناصر کا محاسبہ کیا جائے۔ جنہوں نے قومی ایئرلائن کو نقصان پہنچایا۔
انجینئرز کی تنظیم سیپ کے جنرل سیکریٹری اویس جدون نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کراچی میں موجود طیارے کو لیزنگ کمپنی کو واپس کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انتظامیہ ناکام رہی۔ جس کے بعد ملائیشیا بھجوانا سراسر خسارے کا سودا تھا۔ لیکن حکام نے لاکھوں ڈالرز صرف طیارے واپس کرنے پر پھونک دیئے۔ 13 ملین ڈالر کی ادائیگی سے متعلق اویس جدون کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ لاکھوں ڈالرز ہینگر، پارکنگ اور غیر ملکی انجینئرز کے مینٹی نینس کیلئے ادا کیے گئے۔ جبکہ پی آئی اے کے انجینئرز بھی او سی ایس پر ملائیشیا بھیجے جاتے رہے۔ جس پر کروڑوں کے اخراجات آئے۔ تاہم انتظامیہ نے اربوں روپے کے نقصان کے باوجود ہوش کے ناخن نہ لیے اور نگراں حکومت کو یہ ظاہر کیا گیا کہ پی آئی اے فلیٹ میں دو نئے طیارے شامل کیے گئے ہیں۔
پی آئی اے حکام نے مذکورہ طیاروں کی واپسی کے حوالے سے بتایا تھا کہ انتظامیہ نے 3 ارب 61 کروڑ روپے کی ادائیگی کرکے ایک طیارہ واپس لیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ 2015ء میں پاکستان نے 2 ایئر بس طیاروں کیلئے 6 سالہ لیز کا معاہدہ کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پی آئی اے کے ان دو طیاروں کی خریداری اور وطن واپسی کیلئے 8 ارب روپے کی خطیر رقم کی منظوری بھی دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سابق وزیر خزانہ شمشاد اختر کی زیر صدارت ای سی سی کے اجلاس میں پی آئی اے کیلئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے وسائل کے ذریعے برج فنانسنگ کی منظوری دی گئی تھی۔ تاکہ واجب الادا ادائیگیوں سے متعلق قومی ایئرلائن کی ہنگامی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ 2015ء میں ہونے والے معاہدے میں ماہانہ ادائیگی ساڑھے 5 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رکھی گئی تھی۔
اس پیکیج میں ہوائی جہاز کا کرایہ، دیکھ بھال کے اخراجات اور انشورنس بھی شامل تھی۔ جب معاہدہ مکمل ہوا تو دوبارہ ترسیل کیلئے طیارے روانہ کر دیے گئے۔ وہاں جکارتہ میں ایئر ایشیا نے اس لیزنگ فرم پر قبضہ کر لیا۔ قبضہ گیر نئی انتطامیہ نے واپس لیتے وقت یہ شرط عائد کی کہ لیز پر لیے گئے طیاروں کو ان کی اصل حالت میں واپس کیا جائے۔ جس کیلئے ضروری تھا کہ بوسیدہ پرزوں کو بالکل نئے کے ساتھ تبدیل کیا جائے۔ لیزنگ کمپنی نے مکمل دیکھ بھال اور مرمت کیلئے طیارے کو جکارتہ مین ایف ایل ٹیکنکس کے حوالے کرنے پر اصرار کیا۔ پی آئی اے انتظامیہ کے مطابق اس وقت ان کے پاس اس آپشن پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
پاکستان اور ایئر ایشیا کے درمیان کئی مذاکرات ہوئے۔ جن میں اختلاف بنیادی طور پر پُرزوں کی تبدیلی کے طریقہ کار پر مرکوز تھا۔ تاہم بالآخر پُرزوں کو تبدیل کرنے پر اتفاق رائے ہوگیا۔ جس سے طیارے کو موثر طریقے سے نئی حالت میں بحال کر دیا گیا۔
سی اے اے اور پی آئی اے کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کے سرکاری وفد نے جکارتہ جاکر کمپنی کے ساتھ دوبارہ بات چیت کی۔ جس کی قیمت 21 سے 26 ملین ڈالر تک طے ہوئی۔ پی آئی اے ان دونوں طیاروں کو گرائونڈ ہونے کے باوجود ہر ماہ 6 لاکھ ڈالر کرایہ بھی ادا کرتی رہی۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ طیاروں کے پارکنگ چارجز پر کی جانے والی ادائیگی پر آڈٹ اعتراض بھی سامنے آیا۔ جس میں کہا گیا کہ دونوں طیاروں کی 26 ماہ کی پارکنگ فیس ایک کروڑ 54 لاکھ ڈالر ہو چکی تھی۔ اور آڈیٹر جنرل پاکستان نے یہ معاملہ انتظامیہ کی غفلت قرار دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ اربوں روپے کے نقصان کے بعد بھی اس معاملے کی تحقیقات نہیں کی گئی کہ ان جہازوں پر اب تک کتنے روپے خرچ ہو چکے ہیں؟۔