کاشف ہاشمی :
رواں برس کراچی میں فائر نگ، پُرتشدد واقعات اور دیگر حادثات میں 2 ہزار 404 افراد لقمہ اجل بنے۔ شہر میں71 ہزار سے زائد اسٹریٹ کرائمز رپورٹ ہوئے۔ جس میں بے لگام ڈاکوئوں نے چند ہزار روپے کے موبائل فون اور موٹر سائیکل کیلئے 106 خاندانوں کے چراغ گل کیے۔ جبکہ 700 کے قریب افراد کو گولیاں ماری گئیں، جس میں سے بیشتر معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیے جانے والے شہریوں میں پاک فوج کے حاضر سروس میجر، ریٹائرڈ کمانڈو، پولیس اہلکار، انجینئر، سیکورٹی گارڈ، خواتین اور کم سن بچی سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔ ڈاکوئوں نے شہریوں کو اربوں روپے کی نقدی، طلائی زیورات، گاڑیوں، موبائل فونز اور دیگر اشیا سے محروم کیا۔ شہریوں کے تشدد اور فائرنگ سے 21 ڈاکو ہلاک اور 65 زخمی ہوئے۔
’’امت‘‘ کو پولیس، سی پی ایل سی، ایدھی اور چھیپا سے حاصل اعداد و وشمار کے مطابق کراچی اور سندھ میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے صوبائی حکومت نے اربوں روپے کا فنڈ جاری کیا۔ جو بے سود ثابت ہوا۔ کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے قتل و غارت گری کے واقعات تھم نہیں سکے۔ دہشتگردوں نے اقتصادی حب کو آسان ہدف بناکر دہشت گردی جاری رکھی۔ جس میں ایم کیو ایم لندن کا کردار بھی رہا۔ جس نے ملک دشمن عناصر کا مکمل ساتھ دیا اور شہر میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کیلئے کالعدم تنظیموں ایس آر اے، بی ایل اے، پڑوسی ملک کی زینبیون فورس کے دہشت گردوں کے ذریعے مذہبی و ٹارگٹ کلنگ کرائی۔ جو اب بھی جاری ہے۔
رواں سال 2024ء میں ٹارگٹ کلنگ، خود کش و بم دھماکوں میں ڈی ایس پی اور چائینز باشندوں سمیت 17 افراد نشانہ بنے۔ ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی مزاحمت اور دہشت گردی کے واقعات میں ڈی ایس پی علی رضا سمیت 11 اہلکار شہید اور 85 زخمی ہوئے۔ جنوری سے مارچ تک ایک پولیس اہلکار شہید اور 18 زخمی ہوئے۔ یہ واقعات گلشن اقبال، لیاری اور اورنگی ٹائون میں پیش آئے۔ اپریل سے جون تک صدر، کورنگی اور لانڈھی میں 2 پولیس اہلکاروں کی شہادت ہوئی اور 25 زخمی بھی ہوئے۔ جولائی سے ستمبر کے دوران ڈی ایس پی علی رضا سمیت 7 پولیس اہلکار مختلف واقعات میں شہید ہوئے۔ اس عرصے میں 27 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ 7 جولائی یکم محرم کے روز عزیز آباد میں ڈی ایس پی علی رضا کو ٹارگٹ کیا گیا اور اس کے اگلے روز ہی سرسید میں مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے قاضی عبدالقیوم کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اکتوبر سے دسمبر کے دوران ایک اہلکار شہید جبکہ 15 زخمی ہوئے۔ پولیس افسران کی جانب سے سخت ترین محکمانہ کارروائیوں اور بلند و بانگ دعوے بھی شہریوںکو کسی قسم کا ریلیف نہیں دے سکے۔
شہر میں جھگڑوں کے دوران فائرنگ اور دیگر پرتشدد واقعات میں 453 افراد قتل ہوئے اور 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ جبکہ مختلف علاقوں میں ٹریفک حادثات، ٹرین کی ٹکر، ڈوب کر، سلنڈر بلاسٹ ہونے، کرنٹ لگنے اور دیگر واقعات میں 1419 افراد جاں بحق اور 8273 سے زائد زخمی ہوئے۔ 100 افراد نے خود کو گولی مار کر، پھندا لگاکر اور زہر کھا کر زندگی کا خاتمہ کیا۔ مختلف علاقوں سے نوزائیدہ بچوں سمیت مختلف اسپتالوں میں 309 لاوارث لاشیں لائی گئیں۔ جن میں زیادہ تر نشے کے عادی افراد تھے۔
سال 2024ء میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں کمی نہیں آسکی۔ اعداد و شمار کے مطابق شہر میں 71 ہزار سے زائد اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ سال بھر شہری شدید خوف و اذیت کا شکا ر رہے اور بے لگام دندناتے ڈاکوئوں نے شہریوں کو اربوں روپے مالیت کی قیمتی اشیا اور نقدی سے محروم کیا۔ سفاک اسٹریٹ کرمنلز نے شہریوں کو لوٹ مار کے دوران چند ہزار روپے کی خاطر مزاحمت کرنے پر قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جبکہ سینکڑوں افراد کو گولیاں مار کر زخمی کردیا۔ جس میں بیشتر افراد معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ماہ جنوری میں7 ہزار 822 اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ جس میں ڈاکوئوں نے 12 افراد کو موت کے گھات اتارا۔ ماہ فروری میں 7307 وارداتوں میں 20 شہریوں کو مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ مارچ میں 7544 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ جس میں 19 شہری قتل کیے گئے۔ اپریل میں 5688 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ جس میں 18 شہریوں کو مزاحمت پر قتل کیا۔ مئی میں 5399 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جس میں دو افراد ڈاکوئوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ جون میں 4956 وارداتوں میں 10 شہریوں کو ڈاکوئوں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
جولائی میں 4998 شہریوں کو لوٹا گیا۔ جبکہ 10 شہریوں کو مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ اگست میں 5901 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ جس میں ڈاکوئوں نے 7 افراد کی زندگی کا خاتمہ کیا۔ ستمبر میں 5657 وارداتیں ریکارڈ ہوئیں۔ جس میں 9 افراد مزاحمت پر قتل کیے گئے۔ اکتوبر میں 5675 افراد کو ڈاکوئوں نے لوٹا۔ جس میں 5 افراد کو مزاحمت پر قتل کیا گیا۔ نومبر میں 4879 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ جس میں ڈاکوئوں نے 4 افراد مار ڈالے۔
اسی طرح سال کے آخری مہینے دسمبر میں ڈاکوئوں نے 20 روز 3 افراد کو مزاحمت پر موت کی نیند سلایا۔ جبکہ 3 ہزار سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ دوران ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیے جانے والے افراد میں پاک فوج کے حاضر سروس میجر، ریٹائرڈ کمانڈو، پولیس اہلکار، نجی کمپنی کے سیکورٹی گارڈ، ہونہار طالب علم، کم سن بچی اور خواتین بھی شامل ہیں۔
رواں برس شہر بھر سے 50 ہزار کے قریب گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں اسلحے کے زور پر چھینی یا چوری کرلی گئیں۔ جبکہ 20 ہزار کے قریب شہریوں سے موبائل فون چھینے گئے۔ پولیس کی جانب سے ہاف فرائی فارمولا بھی ڈاکوئوں کو لگام نہ ڈال سکا۔ ڈاکو یومیہ بنیادوں پر سیکڑوں وارداتیں انجام دیتے رہے۔ شہریوں کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ اور تشدد سے 21 ڈاکو ہلاک اور 65 زخمی ہوئے۔
ریسکیو حکام کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق شہر میں مختلف قتل و غارت گری اور پُر تشدد واقعات میں 356 افراد جاں بحق ہوئے۔ جن میں 314 مرد، 28 خواتین، 9 بچے اور 5 بچیاں شامل ہیں۔ فائرنگ کے مختلف واقعات میں زخمی ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 1616 ہے۔ جن میں 1406 مرد، 109 خواتین اور 29 بچیاں شامل ہیں۔
رواں برس مختلف واقعات میں 33 افراد کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ جن میں 22 مرد، 7 خواتین، 2 بچے اور 2 بچیاں شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی 9 بوری بند لاشیں ملیں۔ جن میں 7 مرد، ایک خاتون اور ایک بچی شامل ہے۔ جبکہ چھریوں کے وار سے 55 افراد قتل ہوئے۔ ان میں 44 مرد اور11 خواتین شامل ہیں۔ رواں برس کراچی کے علاقوں سائٹ ایریا، شرافی گوٹھ اور ائیر پورٹ کے قریب چائینز اور جاپانی باشندوں پر خودکش، بم دھماکوں اور حملوں میں دو چائینز سمیت 5 افراد جاں بحق اور تین چائنز سمیت 22 افراد زخمی ہوئے۔
کراچی کے شہریوں کیلئے شہر کی سڑکیں خونیں ثابت ہوئیں۔ جس میں 775 افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔ جن میں 602 مرد، 88 خواتین، 62 بچے اور21 بچیاں شامل ہیں۔ ان ٹریفک حادثات میں زخمیوں کی تعداد 8 ہزار 111 رہی۔ جس میں 6695 مرد، 1058 خواتین، 280 بچے اور 78 بچیاں شامل ہیں۔
گیس سلنڈر پھٹنے کے واقعات میں 8 افراد جاں بحق اور 43 شہری زخمی ہوئے۔ چھت سے گرکر 70، چھت گرنے سے 9، ٹرین کی ٹکر سے45، پانی میں ڈوب کر 74، جھلس کر 12 افراد جاں بحق اور 119 شہری زخمی ہوئے۔ کرنٹ لگنے کے واقعات میں 131، گٹر میں گر کر 8 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ جس میں 5 مرد اور تین بچے شامل ہیں۔ 14 افراد کھلے نالوں میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔ جن میں 9 مرد اور 5 بچیاں شامل ہیں۔
2024ء میں خودکشی کے 100 واقعات ہوئے۔ جن میں 64 مرد اور 36 خواتین شامل ہیں۔ طبعی طور پر وفات پانے والے280 افراد کی میتوں کو بھی اسپتال منتقل کیا گیا۔ منشیات کے استعمال کے باعث 351 مرد اور 12 خواتین کی لاشیں بھی شہر کے مختلف علاقوں سے اٹھائی گئیں۔ جن میں سے بیشتر لاوارث تھیں۔ جبکہ مختلف مقامات سے 29 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں بھی ملیں۔ جن کے مقدمات بھی درج کیے گئے۔ لیکن ان مقدمات میں کوئی ملزم تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
شہر میں نوزائیدہ بچوں کی ملنے والی لاشوں کے حوالے سے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے خصوصی ہدایت تھی کہ پولیس نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کے قتل کے مقدمات درج کرے۔ جس پر پولیس نے مقدمات تو درج کیے۔ لیکن تفتیش ایک کیس کی بھی نہیں کی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی جی سندھ کے احکامات پر ان کے ماتحت افسران نے تاحال کوئی توجہ نہیں دی اور ان کی ہدایات کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔
اسی طرح کراچی اور سندھ میں صحافیوں پر بھی حملے کیے گئے۔ لیکن پولیس حملوں میں ملوث ملزمان کو بھی تاحال گرفتارکرنے میں ناکام نظر رہی۔ مذکورہ تمام اعدادوشمار یکم جنوری سے لے کر 29 دسمبر تک رپورٹ ہوئے ہیں۔