اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر نہ بھیجنے کی ویڈیو پوسٹ کرنے پر صارفین سجاد برکی پر لعن طعن کر رہے ہیں، فائل فوٹو
 اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر نہ بھیجنے کی ویڈیو پوسٹ کرنے پر صارفین سجاد برکی پر لعن طعن کر رہے ہیں، فائل فوٹو

عمران کو ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ دلانے کی کوششیں

امت رپورٹ :

امریکہ میں بھارت اور اسرائیل نواز ارکان کانگریس کے ذریعے متعدد بار پاکستان کے خلاف قراردادیں منظور کرانے اور نئے ہرکارے رچرڈ گرینل کو استعمال کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کو عمران خان کی رہائی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اب اس مایوسی کے عالم میں پی ٹی آئی لابی کی سر توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح اڈیالہ کے قیدی کو ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ مل جائے۔

اس سلسلے میں امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی سے فائدہ اٹھانے والے چند پاکستانی نژاد ڈاکٹر پیش پیش ہیں۔ واشنگٹن میں اسی لابی سے جڑے ایک ڈاکٹر نے ’’امت‘‘ کے ذرائع کو بتایا ’’ہماری لابی بہت زور لگارہی ہے کہ کسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ عمران خان کے نام جاری ہو جائے۔ عمران خان چاہے اس تقریب شریک ہو نہ ہو جس کا امکان بھی نہیں۔ لیکن اس سے یہ ہوگا کہ پاکستان پر بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنے کا دبائو بڑھ جائے گا اور دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم کو اپنے اس بیانیہ کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی کہ نو منتخب امریکی صدر، عمران خان کے پیچھے کھڑا ہے‘‘۔

اس ڈاکٹر کے بقول فی الوقت اس بیانیہ کے لیے رچرڈ گرینل کو استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی امریکہ کے کرتا دھرتائوں کے نزدیک اگر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ عمران خان کو مل جاتا ہے تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ تاہم پی ٹی آئی امریکہ کے کرتا دھرتائوں کو اپنی اس کوشش میں تاحال ناکامی کا سامنا ہے۔ رچرڈ گرینل سمیت اب تک کسی نے دعوت نامہ دلانے کی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی نے رچرڈ گرینل اور پارٹی کے دیگر حامی ارکان کانگریس کے ذریعے اپنی ان کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ بیس جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

مشی گن اور واشنگٹن میں موجود دیگر ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی لابی کے زیر اثر اور تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر عمران خان کی رہائی کی دہائی دینے والے رچرڈ گر ینل کو اس لائن پر ڈالنے والے کردار ہی اب عمران خان کو تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ دلانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کی نام نہاد تنظیم ’’پاک پیک‘‘ جو دراصل پی ٹی آئی کے ہمدردوں کا ایک ٹولہ ہے، اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ چند روز پہلے پاک پیک (پاکستانی امریکن پبلک افیئرز کمیٹی) کی صدر ڈاکٹر عظمیٰ اور سابق صدر اسد ملک نے رچرڈ گرینل کے ساتھ جو ملاقات کی، اس موقع پر بھی عمران خان کو ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ دلانے پر بات ہوئی۔ تاہم رچرڈ گرینل کوئی یقین دہانی کرانے سے قاصر رہے۔

ڈاکٹر عظمیٰ اور گرینل دونوں کا تعلق مشی گن سے ہے۔ پاک پیک نے ٹرمپ کی الیکشن کمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ذرائع کے بقول عمران خان کی حمایت میں گرینل کے حالیہ ٹوئٹس (ایکس پوسٹیں) بھی اسی احسان کا بدلہ ہیں۔ بصورت دیگر انہیں عمران خان سے لیلیٰ مجنوں ٹائپ کی کوئی محبت نہیں۔ لہذا عمران کے لیے ان کی ہمدردانہ پوسٹیں سیاسی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اصل اہمیت ٹرمپ کے اپنے بیان کی ہے جسے حاصل کرنے میں پی ٹی آئی تاحال ناکام ہے۔

پی ٹی آئی امریکہ کے کرتا دھرتا ترس رہے ہیں کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد کسی طرح عمران کے لیے ٹرمپ کے منہ سے ایک آدھ لفظ سر زد ہو جائے۔ اس بارے میں ٹرمپ کے سابق پاکستانی نژاد مشیر ساجد تارڑ کہتے ہیں ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنی تاش کے سارے پتے ٹیبل پر رکھ دیئے ہیں۔ جس سے میکسیکو، کینیڈا، پاناما کنال گرین لینڈ، بھارت، بنگلہ دیش کی ہندو کمیونٹی، غزہ اور یوکرین سمیت دیگر معاملات کے بارے میں ان کے آئندہ کے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کہیں بھی عمران خان نہیں ہے‘‘۔ ساجد تارڑ نے پاک پیک کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’پاک پیک امریکہ کے اندر چند بیمار ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ہے۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے چھیالیس ڈیموکریٹ ارکان کانگریس سے پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کرائی تھی‘‘۔

عمران خان کو دعوت نامہ دلانے کی کوشش کرنے والوں میں ساجد برکی اور عاطف خان بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں وہی حضرات ہیں جو عمران خان کی حکومت سے پوری طرح مستفید ہوتے رہے ہیں اور ان پر پارٹی کے چندے پر ہاتھ صاف کرنے کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں حضرات امریکہ میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دونوں کی کاوشوں سے پی ٹی آئی امریکہ چیپٹر نے متعدد لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کیں۔ تاکہ بائیڈن انتظامیہ کو پاکستان کے آٹھ فروری کے انتخابات مسترد کر کے پاکستان پر پابندیاں لگانے کا راستہ ہموار کیا جاسکے۔

اسی طرح پاکستان کو قرضہ دینے سے روکنے کے لیے آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹر کے باہر مظاہرہ بھی ان دونوں نے کرایا تھا اور خود بھی وہاں موجود تھے۔ اس موقع پر مظاہرین نے پاکستان مخالف پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور ان پر پاکستان کو قرضہ نہ دینے کے مطالبات بھی درج تھے۔ تاہم ان کے یہ ریاست مخالف عزائم تو کامیاب نہیں ہو سکے۔ البتہ ان کی اپنی جیبیں ضرور گرم ہوگئیں۔ دونوں پر پارٹی کے اندر سے یہ الزامات لگائے گئے تھے کہ امریکہ میں لابنگ فرمیں ہائر کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے اوورسیز کارکنان اور ہمدردوں سے جو چندہ اور فنڈز جمع کیا گیا تھا، اس کا ایک بڑا حصہ یہ دونوں کھا گئے۔ ریاست مخالف سرگرمیوں میں پیش پیش ان دونوں میں سے سجاد برکی امریکی شہری ہونے کے باوجود سابق وزیر اعظم عمران خان کا مشیر رہ چکا ہے۔ پی ٹی آئی امریکہ کا صدر بھی تھا۔ اس وقت پی ٹی آئی او آئی سی کا سیکریٹری بنا ہوا ہے۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں موصوف نے اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ عمران خان کی رہائی تک پاکستان رقوم بھجوانا بند یا کم کر دیں۔ تاہم اس ویڈیو پوسٹ کے نیچے متعدد محب وطن پاکستانی صارفین نے سجاد برکی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ایسے القاب سے نوازا جسے تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا ساتھی امریکی شہری عاطف خان بھی عمران خان کے دور حکومت میں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا رہا ہے۔ اسے عمران خان نے بطور وزیراعظم نہ صرف اپنی ٹاسک فورس کا ممبر بنایا۔ بلکہ وزارت اوورسیز پاکستانیز کا فوکل پرسن بھی مقرر کیا تھا۔ آج کل وہ پی ٹی آئی کور کمیٹی کا رکن ہے اور ریاست کو دھمکیاں دینے کی ڈیوٹی پر ہے۔

موصوف نے اپنی حالیہ ایکس پوسٹ پر ویڈیو کلپ میں گیدڑ بھبکی دیتے ہوئے یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ ’’ٹرمپ ذاتی طور پر تین بار عمران خان کے بارے میں پوچھ چکے ہیں کہ وہ کیسے ہیں۔ ٹرمپ کسی کو اپنا دوست بناتے ہیں تو اس سے دوستی نبھاتے ہیں۔ اگر عمران خان کے مطالبات نہ مانے گئے تو پاکستان سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس واپس لیا جاسکتا ہے۔ یا امریکہ پاکستان پر ایسی پاپندیاں لگا سکتا ہے جسے ختم کرنے میں چار سے آٹھ برس لگ جائیں۔ پاکستان میں بیٹھے لوگ فیصلہ کرلیں کہ پابندیاں لگوانی ہیں یا عمران کو رہا کرنا ہے؟‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔