عمران خان:
یونان کشتی حادثات کی تحقیقات میں ایف آئی اے کے 70 سے زائد افسران کارروائی کی زد میں آگئے۔ ایف آئی اے حکام نے محکمہ جاتی انکوائری شروع کرکے حکومتی دباؤ کم کرنے کی حکمت عملی بنالی۔ ملوث مرکزی انسانی اسمگلرز تا حال گرفت سے باہر ہیں۔ اب تک 15 انسانی اسمگلروں اور 31 ایف آئی اے افسران کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ اور پرویژنل کنٹرول لسٹ (پی سی ایل) میں ڈالا گیا ہے۔ تاکہ وہ بیرون ملک نہ جاسکیں۔ اس کے ساتھ ہی 50 سے زائد امیگریشن افسران کے پنجاب کے ایئرپورٹوں سے تبادلے کردیئے گئے ہیں۔ کیونکہ 90 فیصد متاثرین ان کی موجودگی میں بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق بحیرہ روم میں ہونے والی کشتی حادرثہ میں سینکڑوں غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ 80 پاکستانیوں کے ڈوبنے کے واقعہ کے بعد اب تک ہونے والی تحقیقات میں گزشتہ برسوں میں ملکی ایئر پورٹس پر ڈیوٹی انجام دینے والے 70 کے قریب ایف آئی اے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی ہے۔ مذکورہ اہلکاروں اور افسران میں سے 31 ایسے امیگریشن افسران اور اہلکار شامل ہیں جن کی ڈیوٹیوں کے دوران حالیہ دنوں میں ہونے والے حادثے کے متاثرین بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ 38 افسران اور اہلکار وہ ہیں، جن پر الزم ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے کشتی حادثہ میں ڈوبنے والے سینکڑوں پاکستانیوں کی کلیئرنس ان کی ڈیوٹی کے دوران دی گئی تھی۔
تاہم گزشتہ برس ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مذکورہ رپورٹ کو روکے رکھا گیا۔ کیونکہ اس میں ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے بلکہ صرف مختلف توجیہات کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔ گزشتہ برس اس رپورٹ کو اس لئے دبایا گیا گیا کہ 600 پاکستانیوں سمیت 800 سے زائد غیر ملکیوں کے ڈوبنے کا واقعہ وقت کے ساتھ حکومتی ترجیح سے اتر گیا تھا اور وزیراعظم بھی اس معاملے پر رپورٹ طلب کرنا بھول گئے تھے۔ اس وقت ایف آئی اے حکام نے بہتری اسی میں سمجھی کہ وہ رپورٹ روک لی جائے اور خود کو سبکی سے بچا لیا جائے۔ تاہم اب ایک حادثہ مزید پیش آنے کے بعد وزیراعظم کو پرانا واقعہ بھی یاد آگیا اور اس پر تحقیقات مکمل نہ کرنے پر ایف آئی اے حکام کی سرزنش کی گئی۔ جس کے بعد اس پرانی رپورٹ کو بھی نئی رپورٹ کے ساتھ ہی نکال لیا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے خلاف تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران بھی لپیٹ میں آگئے اور سہولت کاری پر 38 افسران کو نوٹسز جاری کردیئے گئے۔ جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر امیگریشن سیالکوٹ ایئرپورٹ کو عہدے سے ہٹادیا گیا۔ گوجرانوالہ میں 2 اہلکاروں پر مقدمہ درج کرکے محکمانہ کارروائی شروع کردی گئی۔ 18 افسران اور اہلکاروں کے تبادلے کردیئے گئے۔ جبکہ ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے یونان کشتی حادثے میں ملوث نو ملزمان گرفتار کرلیے۔ رپورٹ کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے نے سہولت کاری کے الزام پر 38 افسران کو نوٹسز جاری کردیے۔
ان افسران کے خلاف انکوائری رپورٹ میں برطرفی سمیت سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اسی کارروائی میں ایف آئی اے نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث اپنے دو اہلکاروں پر گوجرانوالہ میں مقدمہ درج کرادیا۔ ان اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی شروع کردی گئی۔ جبکہ 58 افسران اور اہلکاروں کے تبادلے کردیے گئے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر امیگریشن سیالکوٹ ایئرپورٹ کو بھی عہدے سے ہٹادیا گیا۔ دوسری جانب انسانی اسمگلنگ ملوث عناصر کی پکڑدھکڑ کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے یونان کشتی حادثے میں ملوث 9 ملزمان گرفتار کرلیے۔ گرفتار ملزمان میں یونان اور لیبیا کشتی حادثے میں ملوث مبینہ انسانی اسمگلرز بھی شامل ہیں۔
دو ہفتے قبل ہونے والے یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے بعد متعدد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک جب کہ کئی لاپتا ہوگئے تھے۔ دفتر خارجہ نے کشتی حادثے میں بچائے گئے 47 پاکستانیوں کی فہرست جاری کی تھی۔ بعد ازاں یونان میں پاکستانی سفیر عامر آفتاب قریشی نے بتایا تھا کہ کشتی حادثے میں اب بھی درجنوں پاکستانی لاپتا ہیں جن کے بچنے کی امیدیں بہت کم ہیں۔ جبکہ حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کی لاشیں سفارتخانہ اپنے خرچ پر پاکستان بھیجے گا۔ اس کے بعد گزشتہ ہفتے یونانی حکام نے لاپتا افراد کو مردہ قرار دیتے ہوئے ان کی تلاش اور ریسکیو کیلئے جاری آپریشن روک دیا تھا۔ جس کے بعد سانحے میں مرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 40 ہوگئی تھی۔
بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق جاری تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ٹھوس سفارشات پیش کرنے، سہولت کاری میں ملوث وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں کی نشاندہی اور ان خلاف کے سخت کارروائی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کو آپس کے رابطے مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی۔
ذرائع کے بقول محکمہ جاتی کارروائی کرکے دبائو کم کیا جا رہا ہے۔ تاہم انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے والے لیبیا ،ترکی ،اٹلی سمیت یورپ کے دیگر ممالک میں موجود مرکزی سرغنے تاحال ایف آئی اے کی گرفت سے باہر ہیں۔ جبکہ حادثات کے بعد ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی ہدایات پر پنجاب کے 5 شہروں کو ہاٹ اسپاٹ قرار دے کر مسلسل مانیٹرنگ کیلئے قائم کی جانے والی خصوصی ٹیموں کا دائرہ کار سب ایجنٹوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔
گزشتہ واقعہ کے بعد ابتدائی کارروائی میں گجرات میں ہونے والے کریک ڈائون میں راجہ راحیل اور سفیان کو کھاریاں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ملزمان باقاعدہ دفتر بنا کر بنا کر کا م کر رہے تھے اور شہریوں سے پیسے وصول کرنے کے بعد اپنا حصہ رکھ کر لیبیا، ترکی اور یورپ میں بیٹھے مرکزی ملزمان کا ان کا حصہ ٹرانسفر کردیتے تھے۔ اس کے علاوہ ملزم محمد سنارا کو گجرا ت کے علاقے منگوا ل سے گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ اجد اکرام، کامران یعقوب اور عارف خالد کو سییالکوٹ بازار سے گرفتار کیا گیا۔ جو بیرون ملک حوالہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیج رہے تھے۔
ان میں سے سب سے اہم کارروائی ملزم سعید سنارا کے حوالے سے کی گئی۔ جس کے بارے میں ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ تمام افراد کو ملزم سعید الیاس نے لیبیا بھجوایا تھا۔ ملزم کو ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم نے گرفتار کیا۔ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ملزم لیبیا کشتی ڈوبنے کیس کے علاوہ 12 سے زائد مقدمات میں انتہائی مطلوب تھا۔ ملزم کے 2 بیٹے لیبیا میں مقیم ہیں اور وہ اپنے بیٹوں کے ذریعے لوگوں کو لیبیا سے اٹلی بھجواتا تھا۔ گرفتار اسمگلروں سے ایف آئی اے حکام تفتیش کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے کشتی کے سانحے کے متاثرین کے اہل خانہ سے غیر قانونی طور پر یورپ بھیجنے کے لیے تقریباً 20 لاکھ روپے وصول کئے تھے۔
ملزم سعید سنارا کا تعق شیخوپورہ سے ہے اور وہ گزشتہ ایک دہائی سے پنجاب کے مختلف شہروں کے نوجوانوں کو مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر بیرون ملک بھجوانے کا کام کر رہا ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق یہ کام ملزم اپنے دو بیٹوں حمزہ سعید اور آفاق کے ساتھ کر رہا تھا جوکہ انسانی اسمگلروں کے ہینڈلر رہے ہیں اور انہیں قانونی کارروائی کے ذریعے وطن واپس لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ دونوں اب بھی لیبیا میں موجود ہیں اور حادثے کے بعد سے حکام سے بچنے کے لئے روپوش ہیں تاہم حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کی جانب سے یہ معلومات لیبیا کے حکام کو دی گئی ہیں جس کے بعد غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق انہیں حراست میں لیا گیا ۔تاہم انہیں پاکستان اب تک منتقل نہیں کیا جاسکا۔
ایف آئی اے کے مطابق انسانی اسمگلروں کا نیٹ ورک پنجاب سے ترکی، اٹلی، اسپین اور یونان کے علاوہ دیگر یورپی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ جن کے مرکزی سرغنے بیرون ملک ہیں۔ تاہم پاکستان میں ان کے عزیز رشتے دار یا ساتھی سب ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ کارروائیوں میں سب ایجنٹوں سے ملنے والی اصل ملزمان کی معلومات اور ان پر قائم مقدمات کی تفصیل انٹر پول کے ذریعے متعلقہ ممالک کو بھیجی گئی ہے۔ جبکہ ان ممالک میں بھی چونکہ یہ ملزمان مقدمات میں مطلوب ہیں۔ اس لئے انہیں پہلے وہاں پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔