فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ نایاب ہرنوں کا مقتل بن گیا

عمران خان :
مہمان سائبیرین پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کے بعد محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے کرپٹ افسران نے سندھ کے نایاب ترین چِنکارا ہرن کی بچھی کچھی تعداد کو بھی اپنی اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا۔ کرپٹ افسران کی سہولت کاری سے ایک ہی واقعہ میں شکاریوں نے غیر قانونی شکار کرتے ہوئے مٹھی تھانے کی حدود میں 7 نایاب ہرن مار دیئے۔

واقعہ کے بعد سندھ میں جنگلی حیات اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق تنظیموں اور سوشل ورکروں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، جسے ٹھنڈا کرنے کے لئے محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے حکام کی جانب سے بڑے مگرمچھوں کے بجائے ماتحت افسران پر نزلہ گرا کر ان کے خلاف انکوائری شروع کرانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق سندھ کے نایاب پرندوں اور جانوروں کے تحفظ کے لئے ایکشن پلان کے تحت رشوت وصول کر کے شکاریوں کو سہولت کاری فراہم کرنے والے محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے افسران کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں برسوں سے ایک ہی مقام پر تعینات افسران کے تبادلوں کی فہرست تیارکرلی گئی ہے جس کے بعد با اثر وڈیروں، وزیروں، مشیروں اور اراکین اسمبلی کو شکار میں سہولت کاری فراہم کرکے اثر و رسوخ بنانے والے افسران نے خود کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے۔ جبکہ انہیں یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ معاملات ٹھنڈے ہوجانے کے بعد انہیں خاموشی سے دوبارہ پرانی پوسٹنگ دے دی جائے گی۔ لیکن فی الوقت کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔

موصول دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ عرصہ میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے سیکریٹریٹ سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ ریاض احمد رند ڈپٹی کنرویٹر میرپور خاص، عبدالغور سرہندی گیم آفیسر تھرپارکر اور بسیرو خاصخیلی گیم واچر میرپور خاص کو فوری طور پر معطل کرکے انہیں ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرنے کی ہدایات جار ی کی گئیں ہیں۔

ان کی جگہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ کے سابق ڈپٹی کنزرویٹر لاڑکانہ میر اعجاز تالپور کو میرپور خاص کے ڈپٹی کنزرویٹر کا اضافی چارج دیا گیا۔ مراسلے میں میر اعجاز تالپور کے لئے مزید ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ معطل ہونے والے افسران اور غیر قانونی شکار کے واقعہ کے حوالے سے انکوائری کرکے مکمل حقائق کے ساتھ رپورٹ آئندہ 10دن میں ارسال کردیں ۔

اس ضمن میں اس وقت ڈپٹی کنزرویٹر کی جانب سے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ تیار کرکے حکام کو ارسال کردی گئی تھی، جس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ واقعہ کے بعد کی جانے والی کارروائی میں شکاریوں کی ایک جیپ، شکاری بندوق کے ساتھ 7 عدد مردہ نایاب ہرن اور ایک عدد نایاب بڑی جسامت والا سیاہ خرگوش بر آمد کیا گیا۔

جبکہ اسی رپورٹ میں شکاری ملزمان کے حوالے سے جو تفصیلات فراہم کی گئیں۔ ان کے مطابق ان میں عمر کوٹ کا وڈیرہ علی احمد ولد سائیں بخش منگریو، ضلع تھرپار کر تحصیل چھاچھرو کا وڈیرہ عبدالغنی ولد کانبو خان نوہری، ضلع عمر کوٹ کا بزنس مین سلیم باری ولد علی محمد آرائیں، تحصل چھاچھرو کا وڈیرہ سلیم ولد امام بخش نوہری اور چھاچھرو نوہری برادری سے تعلق رکھنے والا محمد حسن ولد محمد عثمان جو تھر کول اتھارٹی میں ڈرائیور ہے، شامل تھے۔

مذکورہ واقعہ کے حوالے سے ’’امت‘‘ کو وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے افسر نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل سندھ کے علاقے میں محفوظ قرار دی جانے والی چنکارا وائلڈ لائف سینچری میں قیمتی اور نایاب ترین ہرنوں کے شکار کا ایک غیر قانونی واقعہ پیش آیا، جس میں کھلے عام ہرنوں کو شکار کیا گیا اس واقعہ سے تعلق وڈیوز اور تصاویر تحریری تفصیلات کے ساتھ منظر عام پر آئیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ملوث اور کرپٹ افسران ان ہرنوں کو شکاریوں سے بچانے کے لئے نہیں پہنچے بلکہ دم سادھے بیٹھے رہے۔ بعد ازاں اس معاملے کو جنگلی حیات اور ماحولیات کے تحفظ کے پیش نظر سندھ ہائی کورٹ میں بھی اٹھایا گیا جہاں سے ملوث شکاریوں اور سہولت کار افسران کے خلاف سخت اور غیر جانبدار کارروائی کے اغکامات جاری کردیئے گئے۔

ذرائع کے بقول حیرت انگیز طور پر اس قدر واضح حقائق سامنے آنے کے باجود ملزمان کو گرفت میں نہیں لایا جاسکا۔ جبکہ ملوث افسران کو بھی صرف معطل کرنے پر اکتفا کیا گیا ۔اس ضمن میں محکمہ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی سندھ کے بااثر وڈیرے، وزیر، مشیر اور ارکان اسمبلی اپنے لئے یا اپنے خاص مہمانوں کی تواضع کے لئے شکار کے پروگرام بناتے ہیں تو ہرن، تیتر، بٹیر، مہمان سائبیرین پرندوں کے علاوہ خرگوش کثیر تعداد میں مار دیئے جاتے ہیں۔ اس کھیل کو کامیاب بنانے کے لئے علاقائی گیم آفیسر، گیم واچر یا ڈپٹی کنزرویٹر کو صرف اطلاع دی جاتی ہے۔ تاکہ وہ دو ر ہی رہیں، بلکہ سہولت کاری فراہم کریں۔ جبکہ اصل معاملات پہلے سے ہی کراچی میں قائم محکمہ تحفظ جنگلی حیات و جنگلات کے کنزرویٹر آفس ،سیکرٹری آفس اور منسٹر آفس سے طے کروالئے جاتے ہیں، جہاں سے علاقائی افسران کو حکم کی تعمیل کے لئے پیغام موصول ہوجاتے ہیں۔

محکمہ کے ذرائع کے مطابق یہ کارروائی بھی اسی انداز سے کی گئی جس میں ایک انتہائی سنگین اور افسوسناک واقعہ پر محکمہ کے اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی کے بجائے خانہ پری کرکے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔ محکمہ کے جن افسران کے خلاف کارروائی شروع کی گئی، انہوں نے متعدد بااثر شخصیات سے رابطہ کیا ہے۔ جبکہ تبادلوں کے لئے بنائی گئی فہرست میں جن افسران کے نام شامل رہے۔ انہوں نے بھی ان سرپرستوں سے رابطے کر لئے ہیں جن کو وہ گزشتہ برسوں میں سہولت کاری فراہم کرتے رہے ہیں، جس پر انہیں یقین دہانیاں کرائی گئیں ہیں کہ جلد معاملات بہتر ہوجائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔