اقبال اعوان :
کراچی میں گیس بحران نے شدت اختیار کر لی۔ شہری مجبور ہو کر ایل پی جی سلینڈر استعمال کرنے لگے۔ کھپت بڑھنے پر دکانداروں نے من مانے ریٹ وصول کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
دوسری جانب ناجائز منافع خوری پر ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز کا جواز ہے کہ کراچی میں ایل پی جی کی قیمتوں میں زیادہ اتار چڑھائو ایرانی اسمگل شدہ گیس کی وجہ سے آرہا ہے اور مقامی سیکٹر کم پیداوار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اوگرا نے بار بار ایل پی جی گیس کی قیمتیں کم کیں اور شہریوں کو 250 روپے کلو تک اعلان کرکے ریلیف دینے کی کوشش کی۔ تاہم دکاندار 300 روپے تک فی کلو فروخت کر رہے ہیں۔
اسی طرح شہر میں حادثات کا سبب بننے والے گوجرانوالہ اور لاہور کے ناقص سلینڈر کی فروخت پر کنٹرول نہیں کیا جاسکا ہے۔ واضح رہے کہ سردیوں کے حوالے سے بار بار اعلان کیا گیا تھا کہ سردیوں میں گیس ناشتے، دوپہر اور شام کے کھانے پر رہائشی آبادیوں کو فراہم کی جائے گی۔ جبکہ دیگر اوقات میں بندش ہوگی۔ تاہم گیس کی فراہمی سرد موسم بڑھتے ہی آبادیوں میں انتہائی کم ہوگئی۔ جبکہ بندش کے علاوہ اعلان کردہ اوقات میں بھی نہیں آرہی ہے۔
کراچی میں شہری لکڑیاں، کوئلہ، گوبر، اپلے کم استعمال کرتے ہیں اور زیادہ تر ایل پی جی کا استعمال کرتے ہیں۔ اب کھپت بڑھنے پر ایل پی جی کے حوالے سے اوگرا نے دو روز قبل 4 روپے کی فی کلو کمی کردی اور 250 روپے کلو کر دی گئی۔ تاہم دکاندار علاقوں میں اب بھی 300 روپے کلو تک فروخت کر رہے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ گیس کم بھرنے کی شکایت بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انتظامیہ خاموش ہے شہری پریشان ہیں کہ قیمتوں کے حوالے سے اگر احتجاج کرتے ہیں تو ایل پی جی کی سپلائی رک جائے گئی اور آجکل اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ، ہوٹلوں، ریسٹورانوں، فوڈز آئٹم کے ٹھیلوںاور گھروں پر اس کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہر طرف شہری سلینڈر اٹھائے ایل پی جی کی دکانوں پر قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں اور مہنگی خریدنے پر مجبور ہیں۔
اس ضمن میں کراچی میں ایل پی جی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ محمد اسحاق خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ آجکل ایل پی جی شہریوں کی اہم ضرورت بن چکی ہے اور اس سیکٹر کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ قیمتیں اگر زیادہ ہیں تو اس کی وجہ ایل پی جی فراہم کرنے والے ہیں کہ جس قیمت میں فراہم کریں گے، دکاندار اپنے اخراجات لگا کر قیمت لگائیں گے۔ انتظامیہ اس حوالے سے نگرانی کرے، تاکہ شہریوں کو پریشانی نہ ہو۔
اسی طرح ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری فرحان ایاز کا دعویٰ تھا کہ کراچی میں ایل پی جی زیادہ تر ایران سے اسمگل ہو کر آتی ہے۔ اور دیگر ممالک کے نام پر ایرانی ایل پی جی پانی کے جہازوں سے آتی ہے۔ مقامی پیداوار بہت کم ہے۔ یہاں کی ریفائنری کم پیداوار دے رہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ صوبائی محتسب اعلیٰ کی ہدایات پر پولیس نے گوجرانوالہ اور لاہور کے ناقص سلینڈروں کے خلاف کریک ڈائون کے بجائے بھتہ خوری شروع کر دی ہے۔ پولیس قیمتوں کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔