نمائندہ امت :
پنجاب پولیس نے بلوائیوں پر قابو پانے کیلئے کتوں کے استعمال جیسے اقدامات کیے ہیں۔ تاہم بعض شہری و قانونی اور سیاسی حلقے اسے ناپسندیدہ اور ظالمانہ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان برقرار رکھنے کیلیے ایسا کیا جاسکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب پولیس کی طرف سے پُرتشدد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تربیت یافتہ کتے چھوڑے جایا کریں گے۔ ڈی آئی جی اطہر وحید کے مطابق پنجاب پولیس میں’’کے نائن‘‘یونٹ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ یہ رائٹس مینجمنٹ پولیس میں شامل کیے جائیں گے اور رائٹس مینجمنٹ پولیس میں دس ڈاگ ہینڈلرز بھرتی کیے جائیں گے جنہیں پانچ ماہ کی خصوصی تربیت دی جائے گی ۔
پاکستان میں مظاہرین پر پولیس فورس، آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال تو ہوتا رہا ہے۔ لیکن انہیں کنٹرول کرنے کے لئے کتے استعمال کرنے کی کوئی مثال نہیں۔ بلکہ انسانوں پر پالتو کتے چھوڑنے والوں کو سزائیں دیے جانے کی بین الاقوامی مثالیں موجود ہیں تاہم یہ سزائیں کتے پالنے والے مالکان کو دی گئی ہیں اور پاکستان میں انسانوں پر کتے چھوڑنے والوں کے خلاف پولیس خود مقدمات درج کرتی رہی ہے۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صدر احسان وائیں کا کہنا تھا ’’یہ غیر فطری عمل، انسانیت کے خلاف اور انسانیت کی دھجیاں اڑانے والی بات ہے۔ نہ صرف عمل بلکہ یہ سوچ ہی انسانیت کی توہین ہے۔ صرف پنجاب یا پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی خطے میں مظاہرین پر کتے چھوڑنے پر مزاحمت اور احتجاج کرنا چاہیے اور ایسی سوچ کی نفی کرنا چاہیئے۔ انہوںنے کہا کہ یہ بربریت کے ماسوا کچھ نہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں دین اسلام کا نام لیا جاتا ہو۔ وہاں انسان کی تکریم نظر انداز کردی جائے۔‘‘
سینئر قانون دان راجہ عبدالرحمان کا کہنا تھا ’’آئین میں طے شدہ اور مسلمہ حقِ احتجاج کو تحفظ حاصل ہے لیکن یہ پُر امن احتجاج کا حق ہے۔ پر تشدد احتجاج کا نہیں۔ اگر کوئی احتجاج پُر تشدد ہوجاتا ہے تو اس کے لئے قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔ مگر مظاہرین پر کتے چھوڑنے سے تو یہ مراد لی جائے گی کہ ٹرائل سے پہلے ہی سزا دی جائے جس کی قانون میں گنجائش نہیں اور نہ ہی یہ کسی اخلاقی دائرے میں آتی ہے۔‘‘
ہیومن رائٹس سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل اے ایم شکوری کا کہنا تھا ’’انسانوں پر کتے چھوڑنا انتہائی ناقابلِ برداشت ، ناقابلِ قبول اور انسانیت کی تذلیل ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’اس سے بڑی بربریت کیا ہے کہ کسی انسان پر کتے چھوڑ دیے جائیں۔ وہ بھلے کتنے ہی سدھائے ہوئے کیوں نہ ہوں، بہر حال جانور ہیں اور کسی کو کاٹ بھی سکتے ہیں۔ جبکہ ماضی میں کسی بد سے بد ترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ انسانوں کو کنٹرول کرنے کے قانون کے استعمال اور سیکیورٹی فورسز کے بجائے ان پر کتے چھوڑ دیے جائیں۔‘‘
سینئر قانون دان عامر سہیل کا کہنا تھا ’’ابھی حال ہی میں جو کچھ پارا چنار میں ہوا یا اس سے پہلے اسلام آباد سمیت مختلف مقامات پر جو پُر تشدد واقعات پیش آئے ہیں جن میں پولیس کے ساتھ ساتھ سول افسروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، تو لگتا یہ ہے کہ پنجاب پولیس نے ان واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اینٹی رائٹس فورس میں کتے شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جنہیں تربیت دی جائے گی اور وہ مظاہرین کو کنٹرول یا تعاقب کرنے کے کام آسکیں گے۔
جہاں تک قانون کی بات ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے جب کسی کام کو عملی شکل دیں گے تو یقینی طور پر قانون کو بھی مدِ نظر رکھیں گے۔ جہاں تک انسانی حقوق کا تحفظ ہے اور انسان کی تکریم ہے تو اسے اس انداز سے کسی صورت نہیں دیکھا جانا چاہئے کہ اسرائیلی فورسز نے مظلوم فلسطینوں پر کتے چھوڑنے کا شرمناک اور قبیح عمل کیا، وہ قابض فورس ہے اور کچھ بھی کرسکتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ امن و امان کا ہے اور تربیت یافتہ ڈاگ یونٹ کی بات کی جارہی ہے ۔ اس فورس کو سیکورٹی فورسز ایک ڈیفنس لائن کے طور پر استعمال کرنا چاہیں گی ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کتوں کو مظاہرین پر انہیں کاٹنے یا چھیر پھاڑ کے لئے چھوڑا جائے۔‘‘
دریں اثنا جانوروں کو سدھانے والے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ جانور کو جس طرح کی بھی تربیت دی جائے ، وہ اس طرح ڈھل جاتا ہے۔ جس ڈاگ فورس کی بات کی جارہی ہے وہ ایک خاص قسم کی نسل اور تربیت سے قابلِ عمل بنائی جاتی ہے اور اسے سدھایا جاتا ہے لیکن یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ جانور بہر حال جانور ہے اور ہر جانورکی ایک اپنی جبلت بھی ہے۔ کوئی جانور بھی اپنے اوپر حملے کو برداشت نہیں کرتا ، اگر سدھائے ہوئے جانور پر بھی سختی کی جائے تووہ ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔