اقبال اعوان :
کراچی میں موسم سرد ہوتے ہی جنگلی کبوتروں کی شامت آگئی۔ کبوتر کو ذبح کر کے اس کا خون فالج زدہ اعضا پر لگانے کے علاوہ گوشت کی یخنی بنا کر پینے کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ لوگوں نے کبوتر پکڑ کر پرندوں کی دکانوں پر فروخت کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ جبکہ نشہ کرنے والوں کو منشیات خریدنے کے لیے ایک نیا روزگار مل گیا ہے۔
واضح رہے کہ سرد موسم نے جہاں کئی نئے روزگار پیدا کر دیئے ہیں۔ وہیں جنگلی کبوتروں کی خرید و فروخت کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ حکمت کا علاج کرنے والوں اور بزرگوں کے ٹوٹکوں کے مطابق جنگلی کبوتر کے گوشت اور خون کی تاثیر خاصی گرم ہوتی ہے۔ اس لیے سرد موسم میں اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ ٹھنڈ بڑھتے ہی جہاں ہڈی، جوڑ اور پٹھوں کے امراض بڑھ جاتے ہیں۔ وہیں ناقص اور مضر صحت غذائوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے فالج کے اٹیک بھی زیادہ ہو رہے ہیں۔ فالج کے مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ جنگلی کبوتر کو ذبح کر کے اس کا تازہ خون متاثرہ اعضا پر لگایا جائے اور جوڑوں و ہڈیوں پر مالش کر کے کپڑا باندھ دیا جائے۔ جبکہ سرد موسم میں ضعیف العمر لوگ، بیمار اور شوقین افراد بھی کبوتروں کو ذبح کر کے اس کی یخنی بناتے ہیں۔
شہر بھر میں کبوتر چورنگیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ چند برس قبل تک کورٹ چورنگی، فوارہ چوک، آرٹس چوک، ناظم آباد، حیدری، کورنگی کراسنگ، ڈیفنس چورنگی سمیت چند چورنگیوں پر کبوتر نظر آتے تھے۔ تاہم اب ہر چورنگی، چوراہے، فٹھ پاتھوں، پارکوں اور میدانوں میں کبوتروں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے۔ ایک جانب سینکڑوں کی تعداد میں قائم کبوتر چورنگیوں پر دانہ، پانی کے اسٹال لگ گئے ہیں۔ اس طرح یہ اشیا شہریوں کو فروخت کرنے والوں کو روزگار مل گیا ہے۔ شہر کی پرندہ مارکیٹوں، اتوار اور جمعہ کو لگنے والے پرندہ بازاروں میں جہاں سفید، گلابی، نیلے اور مختلف رنگوں کے کبوتر نظر آتے ہیں۔ جو پالتو ہوتے ہیں۔ ان کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ اب جنگلی کبوتروں کی خریدو فروخت بھی بڑھ گئی ہے۔
شاہ فیصل کالونی کے دکاندار ہاشم کا کہنا تھا کہ ایک جانب کبوتر پالنے والے چھتوں پر دانہ ڈال کر جنگلی کبوتروں کا شکار کرتے ہیں۔ تو دوسری طرف کبوتر چورنگیوں سے کبوتر پکڑ کر لاکر فروخت کرنے والے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ ان کے علاوہ نشہ کرنے والے بھی آج کل کبوتر پکڑ کر لاکر فروخت کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر ہاشم نے بتایا ’’نشہ کرنے والے 50/60 روپے کا ایک کبوتر اور کبوتر پالنے والے 100 روپے کا کبوتر فروخت کرتے ہیں۔ ان کو ہم گاہک کے ہاتھوں ڈھائی سو سے 3 سو روپے تک فروخت کردیتے ہیں۔ آج کل یہ کام خوب چل رہا ہے اور منافع بھی مل جاتا ہے۔ دو مہینے کی سردی ابھی باقی ہے۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ کیا صورت حال ہوتی ہے‘‘۔
صدر میں پرندہ بازار کے رفیق احمد کا کہنا تھا کہ شہر میں صبح سے شام تک بڑی تعداد میں جنگلی کبوتر آتے ہیں۔ اب ان بے زبان معصوم پرندوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں ان کی ڈشیں بنتی ہیں اور یخنی ملتی ہے۔ اب اس شہر میں بھی کبوتروں کی خریدفروخت بڑھ گئی ہے۔
ایک پنساری جبار خان کا کہنا ہے کہ جنگلی کبوتر سردیوں میں بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا خون، گوشت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے اور اس طرح لوگوں کو نیا روزگار بھی مل گیا ہے۔