کراچی میں کباڑیوں کی رجسٹریشن ضروری ہو گئی، فائل فوٹو
 کراچی میں کباڑیوں کی رجسٹریشن ضروری ہو گئی، فائل فوٹو

مسروقہ سامان کی خریدوفروخت سے کباڑیوں کی چاندی

اقبال اعوان :

کراچی کے کباڑیئے مسروقہ سامان کی خریدوفروخت سے خوب مال کمانے لگے ہیں۔ کباڑیئے چونکہ پولیس کیلئے سونے کی چڑیا ہیں۔ اس لیے قانون سازی کرنے یا دیئے گئے احکامات کے حوالے سے عمل درآمد کرانے کے بجائے بھتہ وصولی کرکے کباڑیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ چور اور منشیات استعمال کرنے والے واردات کرکے سامان کھلے عام فروخت کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ شہر میں کباڑیوں کو مقامی تھانوں اور اسسٹنٹ کمشنر آفس میں نئے سرے سے رجسٹریشن کرا کے اجازت لینے، لائسنس بنوانے، دکان میں کیمرے لگانے سمیت دیگر قوانین کا پابند کیا گیا ہے۔ ان پر لازم ہے کہ خریدا گیا سامان اس طرح رکھیں کہ سامنے نظر آئے۔ پریس کرنے والی مشین کے استعمال کے دوران کیمرے سے ویڈیو اس طرح بنائی جائے کہ معلوم ہو کہ کیا سامان پریس کیا گیا ہے۔ مسروقہ سامان نہ خریدنے کی ضمانت دینا بھی ہوگی۔

مزید یہ کہ علاقے کے لوگوں کی گواہی بھی شامل ہو گی کہ کباڑیا مسروقہ سامان نہیں خریدے گا۔ اب کوئی دکان پر گھریلو سامان، پنکھے، واشنگ مشین، سلائی مشین، بیٹری، یو پی ایس، جنریٹر یا دیگر سامان فروخت کرے گا تو شناختی کارڈ کی کاپی جمع کرائے گا کہ فلاں نے فلاں مال فروخت کیا۔ اس کی رجسٹریشن کرنا ہو گی۔ اس کے بعد کباڑیئے کی دکان چلے گی۔ ورنہ مقامی پولیس اور انتظامیہ اجازت نہیں دے گی۔ لیکن دیگر غیرقانونی کاموں کی طرح کباڑیوں کو بھی پولیس نے سیٹنگ کے بعد کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ روزانہ صبح موبائل اور موٹر سائیکل سوار اہلکار چائے پانی کے نام پر بھتہ خوری کر رہے ہیں۔

کباڑیوں کا کہنا ہے کہ سیٹنگ ماہانہ بنیاد پر الگی ہے اور روزانہ والا بھتہ الگ دیا جاتا ہے۔ مسروقہ سامان کی خریدوفروخت میں ملوث بیشتر کباڑیوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ بلکہ وہ خود حصہ دار یا رشتہ داروں کے نام پر دھندا کر رہے ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران یہ بات کہہ چکے ہیں کہ نشہ کرنے والوں کی بڑی تعداد چوریاں کرتی ہے۔ نجی اور سرکاری املاک، گھریلو سامان، موٹر سائیکل، گاڑیوں کے پارٹس چوری کرتے ہیں اور کباڑی سستے داموں اس مسروقہ سامان کو خریدتے ہیں اور خوب مال کما رہے ہیں۔

شہر میں کباڑیئے اپنی دکان کے درجن سے زائد ٹھیلے لگواتے ہیں۔ جو ان کو سارا دن خریدا ہوا سامان فروخت کرنے کے پابند ہیں۔ اتوار، منگل، جمعہ بازار میں الگ کباڑ بازار لگتے ہیں۔ جہاں سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑیوں کے پارٹس، مسروقہ سامان، گھریلو سامان سمیت دیگر اشیا فروخت ہوتی ہیں۔ اس طرح مارکیٹوں کے آگے ٹھیلے پتھارے لگانے والے بھی مسروقہ سامان کی دوبارہ فروخت کرنے لگے ہیں۔ شہر میں لگ بھگ کباڑیوں کی 7 ہزار سے زائد دکانیں ہیں۔ جو عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں۔

شیرشاہ کباڑی بازار اور رنچھوڑ لائن کی موٹر سائیکل کے پرانے پارٹس کی دکانیں الگ ہیں۔ جو کاروبار شفاف کرتے ہیں۔ اب کراچی میں کریک ڈائون کرنے کے دوران سیٹنگ نہ کرنے، بھتہ نہ دینے یا کم دینے والوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ایک دکاندار حکیم اللہ کا کہنا ہے کہ شہر میں منشیات کی فروخت اور چوری کی وارداتیں بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ مسروقہ مال کی خریدوفروخت کرنے والے کباڑیوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ دو دن کباڑیوں کی شہر میں دکانیں بند کرا دیں۔ مسروقہ سامان فروخت کرنے والے سامان اٹھائے ادھر ادھر بھاگتے نظر آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کباڑی جس طرح خوب مال کما رہے ہیں۔ یہ کباڑ کا کام کرنے والے نہیں۔ بلکہ پولیس کی سرپرستی میں کام کرنے والے دو نمبر لوگ ہیں۔ اعلیٰ افسران کارروائی کرانے لگتے ہیں تو ان کے ٹرانسفر ہو جاتے ہیں۔ تھانہ دار بھی جانتا ہے کہ نہ جانے کب اس کا ٹرانسفر لیٹر آجائے اور اسے ہیڈ کوارٹر یا کہیں اور بھیج دیا جائے۔ اس لیے جہاں سے بھی مال آرہا ہے، آنے دو۔ شہر میں ان کباڑیوں کی وجہ سے چوری کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر کے انفرا اسٹرکچر دیکھ لیں۔ پلوں کی ریلنگ، اوور ہیڈ برج، انڈر پاس، سرکاری اور نجی عمارتوں میں چوریوں کا سلسلہ جاری ہے۔