بین الاقوامی وہیل چیئر ڈے:پیراپلیجک سنٹر پشاور میں خصوصی تقریب

 

تحریر: غلام حسین غازی

ہر سال یکم مارچ کو دنیا بھر میں انٹرنیشنل وہیل چیئر ڈے منایا جاتا ہے تاکہ وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد کی ضروریات، حقوق اور درپیش چیلنجوں کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ دن سب سے پہلے 2012ء میں ایک برطانوی انجینئر اور معذوروں کے حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر جیف ایڈمز اسپنک نے متعارف کروایا تھا، جو خود بھی ایک وہیل چیئر صارف تھے۔ پاکستان میں اگرچہ یہ دن رسمی طور پر منا لیا جاتا ہے لیکن اکثر اس کا اصل مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔ تاہم پیراپلیجک سینٹر پشاور ملک کا واحد قومی ادارہ ہے جہاں نہ صرف افراد باہم معذوری کی جسمانی و نفسیاتی بحالی اور فلاح و بہبود کیلئے عملی اقدامات ہوتے ہیں بلکہ ہر سال یہ دن بھی ایک نئے عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

چنانچہ اس سال بھی پی سی پی نے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان میں خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دور افتادہ علاقوں سے آئے پی سی پی گریجویٹس کے علاوہ بیرون ملک کے پی سی بی گریجویشن بھی شامل تھے۔ ان میں سعودی عرب کے نوجوان عبدالالٰہ اور افغانستان سے خلیل جان نمایاں تھے۔ پیراپلیجک سینٹر پشاور میں وہ افراد جو اپنی بحالی کا سفر مکمل کرتے ہیں انہیں "گریجویٹس” کا اعزازی خطاب دیا جاتا ہے جو ان کی اول العزمی اور خود مختاری کی علامت بنتا ہے۔ مزید برآں ان کی مکمل خودمختاری اور آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنانے کیلئے انہیں بلا معاوضہ خصوصی وہیل چیئرز اور دیگر معاون آلات فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں ان آلات کے استعمال کی سیر حاصل تربیت بھی دی جاتی ہے۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقاتِ عامہ بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف تھے پیراپلیجک سینٹر کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر سید محمد الیاس صدر مجلس تھے۔ تقریب کے دوران ایک انتہائی جذباتی لمحہ اس وقت آیا جب مہمان خصوصی کی آمد پر سعودی پی سی پی گریجویٹ عبدالالٰہ نے باآواز بلند سلام کرکے انہیں خوش آمدید کہا اور انہیں گلدستہ پیش کیا۔ اس منظر کو استقبالیہ پر موجود عملے اور مہمانوں نے تالیوں کی گونج میں خوب سراہا، کیونکہ یہ نہ صرف اس سعودی نوجوان اور سنٹر کے عملے کی بیرسٹر سیف سے والہانہ محبت کا اظہار تھا بلکہ سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ اور گہرے دوستانہ تعلقات کی ایک خوبصورت جھلک بھی دیکھنے کو ملی۔

تقریب کا آغاز خوش الحانی سے کی گئی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت کالج آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کے فزیو تھراپسٹ اور کوآرڈینیٹر محمد اقبال نے حاصل کی جبکہ پروگرام کی نظامت کے فرائض افراد باہم معذوری کی فلاحی تنظیم فرینڈز آف پیراپلیجکس کے جنرل سیکرٹری انجینئر عرفان اللہ نے انجام دیئے۔ ان کی جوش و جذبے سے معمور میزبانی اور پُراثر اشعار نے پوری تقریب کو مسحور کئے رکھا جبکہ کچھ اشعار تو شرکاء بھی ان کے ساتھ دہراتے رہے۔ جب بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف اور ڈاکٹر سید محمد الیاس ہال میں داخل ہوئے تو میزبان نے بہ زبان شاعر اور حاضرین نے پرجوش تالیوں میں ان کا استقبال کیا۔ انجینئر عرفان اللہ نے اپنی شاعرانہ روش برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی وہیل چیئر ڈے کی اہمیت بھی خوب اجاگر کی اور پیراپلیجک سینٹر کی گراں قدر خدمات پر روشنی ڈالی۔ ان کے یہ دو اشعار شرکاء میں زبان زد عام بن گئے کہ

یہ وہیل چیئر میری پہچان میری ہمت میری جان ہے
میں بڑھتا ہی جاؤں گا کبھی جھکنے نہ پاؤں گا

یہ دنیا جو کر نہیں سکتی وہ میں کر دکھاؤں گا وعدہ ہے میرا
کائنات کا ہر چیلنج ہر مشکل آسان بناؤں گا یہ عزم ہے میرا

بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے جو زبان و بیان کے پکے ایک مقناطیسی شخصیت کے مالک ہیں اور ان کا سیاست و حکومت کا اپنا باوقار اور منفرد انداز ہے، اپنے خطاب میں ایک بڑی معاشرتی حقیقت پر روشنی ڈالی کہ وہیل چیئر معذوری کی علامت نہیں بلکہ آزادی کی پہچان ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے سماجی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد کو معاشرے میں معذور نہیں، بلکہ باعزت اور مساوی شہری کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان میں مقامی سطح پر معذور افراد کی ضروریات کے مطابق کسٹمائزڈ وہیل چیئرز تیار کرنے کی بنیادی ضرورت پر بھی زور ڈالا۔ اس حوالے سے انہوں نے پیراپلیجک سنٹر پشاور کے زیرانتظام محدود وسائل کے باوجود وہیل چیئر مینوفیکچرنگ یونٹ کے قیام کو سراہا اور اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ یہ یونٹ افراد باہم معذوری کیلئے انکی ضرورت، جسامت، عمر اور حالت کے مطابق اعلیٰ معیار کی وہیل چیئرز تیار کر رہا ہے جو نہ صرف ان کی جسمانی بحالی کو یقینی بناتی ہیں بلکہ یہ خود انحصاری کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا بھی برملا اعتراف کیا کہ پاکستان کو غیر ملکی وہیل چیئرز پر انحصار اور درآمدات کم کرکے مقامی سطح پر پیداوار کو ترجیح دینی چاہئے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کی بچت کے ساتھ ساتھ ملکی صنعت کو بھی فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے حاضرین کو گواہ بنا کر یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ پی سی پی کو درپیش مسائل وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے نوٹس میں لائیں گے جو بذاتِ خود بھی دردمند دل رکھنے والے سماجی خدمت گزار ہیں اور وہ جلد ہی سینٹر کا دورہ کرکے ان مسائل کے حل کیلئے موقع پر اقدامات کا اعلان کریں گے۔

اس موقع پر ڈاکٹر سید محمد الیاس نے جو دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت اور انسان دوستی کے باعث عبدالستار ایدھی ثانی کہلاتے ہیں، پاکستان کے صحت کے نظام کی بنیادی کمزوریوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے طب اور جدید میڈیکل سائنس کے پانچ بنیادی ستونوں میں سے صرف ایک یعنی علاج معالجہ (کیوریٹیو میڈیسن) پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے جبکہ قومی صحت کے دیگر چار ستونوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جدید طب جن پانچ ستونوں پر قائم ہے ان میں احتیاطی طب (پریونٹیو میڈیسن)، علاج معالجہ (کیوریٹیو میڈیسن)، بحالی طب (ری ہیبیلیٹیٹیو میڈیسن)، تسکینی طب (پیلیٹیو میڈیسن) اور احیائی طب (ری جینیریٹیو میڈیسن) شامل ہیں اور ان سب ستونوں کے ارتباط و انٹیگریشن کے ذریعے ہی عوامی امنگوں کے مطابق بیماریوں سے پاک قومی صحت کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ جسمانی و نفسیاتی بحالی (ری ہیبیلیٹیٹیو میڈیسن) کو پاکستان کے صحت کے نظام میں مرکزی حیثیت ملنی چاہئے کیونکہ یہ علاج معالجہ (کیوریٹیو میڈیسن) کی نسبت کم خرچ اور بالانشین طریقہ ہے جبکہ یہ افراد باہم معذوری کو خودمختار اور ثمرآور زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔

ڈاکٹر الیاس سید نے مقامی سطح پر وہیل چیئرز کی تیاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ عالمی معیار کے مطابق دنیا کی کم از کم ایک فیصد آبادی کو وہیل چیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں تقریباً ساڑھے 23 لاکھ جبکہ خیبر پختونخوا میں ساڑھے تین لاکھ افراد کو حسبِ ضرورت تیار کی گئی وہیل چیئرز درکار ہیں۔ اس حقیقت کے برعکس پاکستان میں مقامی پیداوار پر توجہ دینے کی بجائے درآمد شدہ وہیل چیئرز پر انحصار کیا جا رہا ہے جس سے قیمتی زرِ مبادلہ کا ضیاع ہونے کے علاؤہ روزگار کے مواقع بھی بیرون ملک منتقل ہو جاتے ہیں۔

پیراپلیجک سنٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر اسسٹیو ٹیکنالوجی منصور گولڑہ نے اس موقع پر مہمان خصوصی اور دیگر شرکاء کو اپنی ملٹی میڈیا پریزنٹیشن میں وہیل چیئرز کی تیاری پر تفصیلی بریفنگ دی اور افراد باہم معذوری کی جسمانی اور نفسیاتی بحالی میں وہیل چیئر کی اہمیت اجاگر کی۔ انہوں نے مہناز آفریدی، احسان دانش اور انجینئر سلمان خان جیسے وہیل چیئر چیمپئنز کی متاثر کن کامیابیوں کا ذکر بھی کیا جنہوں نے بروقت جسمانی بحالی اور کسٹمائزڈ وہیل چیئر استعمال کیا اور معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ اپنی طاقت بنا کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اس کا تذکرہ عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ افراد باہم معذوری کو جب ضروری معاونت اور وسائل فراہم کئے جائیں تو وہ بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے تقریب کے اختتام پر وہیل چیئر مینوفیکچرنگ اور جسمانی بحالی کی خدمات میں حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ورکروں کو اعزازی شیلڈز سے نوازا۔ یہ تقریب نہ صرف معذور افراد کے حقوق اور ضروریات کے حوالے سے آگہی پیدا کرنے کا ذریعہ بنی بلکہ پیراپلیجک سنٹر کے اہلکاروں کے اس عزم کی تجدید کا باعث بھی بن گئی کہ معذور افراد کی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی بحالی کیلئے پہلے سے بڑھ کر کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔