اقبال اعوان :
کراچی میں تانگہ چلانے والوں نے سندھ حکومت سے روزگار کی امیدیں باندھ لیں کہ صوبائی حکومت شہر میں خوبصورتی لانے اور ثقافت کو دوبالا کرنے کے لئے ڈبل ڈیکر بسیں لارہی ہے۔ ٹرام چلانے کے حوالے سے بھی مشاورت جاری ہے۔ اسی طرح بگھی اور تانگے کو بھی شہر میں مخصوص مقامات پر روزگار دیا جائے۔
واضح رہے کہ شہر میں تانگوں کا روزگار مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ شادی بیاہ میں بگھی اب بھی چل رہی ہے۔ کلفٹن ، ڈیفنس ، فریئر ہال، صدر سمیت دیگر علاقوں میں بگھی کا جہاں استعمال جاری ہے، وہیں کچی آبادیوں میں قومی دنوں اور عید و دیگر تہواروں پر تانگے والے آجاتے ہیں اور بچے شوق پورا کرتے ہیں۔ گڈاپ ، ملیر کے گوٹھوں میں تانگے سواری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہورہا ہے۔ شاہ فیصل کالونی ایک پر تانگہ اسٹینڈ آج بھی آباد رکھا گیا ہے۔ یہاں ایک دو تانگے اور بگھیاں موجود ہوتی ہیں۔
تانگے والے اجمل کا کہنا ہے کہ اس کی 67 سال عمر ہے اور 12 سال سے تانگہ چلانا شروع کیا۔ ساری زندگی اسی طرح گزار دی ۔ کئی گھوڑے لاکر استعمال کئے۔ کئی گھوڑے مرگئے اور کئی گھوڑے فروخت کرکے دوسرے خریدے۔ لیکن دوسرا روزگار شروع نہیں کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اب عیدوں، 23 مارچ اور 14 اگست پر تانگے پر بچوں کو سواری کراتا ہوں۔ اس طرح دوچار دن میں دو وقت کی روٹی بچوں کو اچھی کھلاتا ہوں۔ گھوڑا بھی تازہ چارہ کھالیتا ہے۔ اب سندھ حکومت ثقافتی جگہوں اور روزگار کو ابھار رہی ہے، جس طرح پرانے انگریزوں کے دور کی طرح ایمپریس مارکیٹ دوبارہ بحال کی۔
اسی طرح ٹرام کو دوبارہ چلانے کے حوالے سے مشاورت ہورہی ہے۔ ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ ہمیں سندھ حکومت سے امید ہے کہ تانگے اور بگھی والوں کو پہلے کی طرح روزگار دیا جائے گا اور تانگے والے اچھے روزگار کے دوران لہک لہک کر یہ گانا گائیں گے کہ ’’بندر روڈ سے کیماڑی چلی رے میری گھوڑا گاڑی بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر‘‘ شاید اس سمیت دیگر تانگے چلانے والے روزگار والے دوبارہ کام شروع کردیں۔ تانگے والے جمیل کا کہنا ہے کہ شاہ فیصل کالونی نمبر ایک، جٹ لین صدر، لیاری ، رامسواری سمیت دیگر علاقے کے تانگا اسٹینڈ دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں۔ گرومندر چوراہے کے قریب تک گھوڑوں کو پانی پلوانے کے لئے بنا تالاب آج بھی موجود ہے کہ سولجر بازار سے بگھی اور تانگے والے ادھر آتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیاری میں تانگہ اسٹینڈ اب بھی رضائی گدے کی جارکیٹ کے پاس ہے۔ اب بھی ایک دو تانگے والے ادھر ادھر آتے ہیں۔ اب شیرشاہ کباڑی بازار اور لانڈھی بھینس کالونی میں جمع اور اتوار کو لگنے والی گدھا منڈیوں میں گھوڑے اور پرانے تانگے فروخت ہوتے ہیں اور خریدنے والے لے کر مرمت کراتے ہیں۔ اب گھوڑا کمزور مریل زیادہ عمر والا بھی مہنگا ہوچکا ہے۔
50 سال قبل اچھا گھوڑا جو گاڑی پر چلاتا تھا، 20 ہزار کا لیا تھا۔ اب لاکھ سے اوپر کا آرہا ہے۔ گاڑی 7 ہزار میں خریدی تھی۔ اب 90 ہزار روپے تک مل رہی تھی۔ نئی گاڑیاں بنانے کا کام بند ہے کہ تانگے والوں کا روزگار جب شروع ہوگا تب بنائیں گے۔ اب یہ کام بند ہے جبکہ جن تانگے والوں کے پاس پرانے تانگے ہیں وہ گزارہ کرنے کے لئے خود مرمت کرتے ہیں۔ رنگ روغن نہیں کرتے۔ جانور کی خدمت نہ کرو تو بیمار ہوکر مرجاتا ہے۔ اس کی مالش چارہ دانہ کرتے اور اپنی دیہاڑی کے لئے کوئی مزدوری کرلیتے ہیں ان کا مطالبہ تھا کہ سندھ حکومت ان کو بھلے مخصوص جگہ پر چلانے کی اجازت دے کہ تفریحی مقامات پر وہ الگ تانگے چلائیں۔
شہر میں ٹوٹی سڑکیں، ٹریفک کا رش ، آجکل موٹر سائیکل، سائیکل گاڑی والوں کو ڈمپر ، ٹرالر ، ٹینکر تک کچل رہے ہیں تو تانگے والے کو کون راستہ دے گا۔ بس یہ چاہتے ہیں کہ قدیم سواری کے طور پر ان کو اجازت دی جائے کہ کراچی کے ماضی میں تانگے، بگھیاں ، گدھا گاڑی ، اونٹ گاڑیاں ، بیل گاڑیاں چلتی تھیں۔