فائل فوٹو
فائل فوٹو

’’ذخیرہ اندوزکو ملعون قرار دیا گیا ہے‘‘

محمد اطہر فاروقی :

ماہ رمضان میں پھل، چینی، چاول، تیل، گھی اور گوشت سمیت اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ ماہ مبارک میں گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے دین کیا کہتا ہے؟ اور قرآن پاک اور حدیث نبویؐ میں کیا حکم اور وعید ہے؟ ’’امت‘‘ نے اس حوالے سے کچھ معلومات حاصل کیں۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ یوسف بنوری ٹائون نے اس پر ایک فتویٰ جاری کیا ہوا ہے۔ جامعہ بنوری ٹائون کے فتویٰ نمبر 144001200503 میں لکھا گیا ہے ’’ایسی اشیا کی ذخیرہ اندوزی جو ضروریات میں شامل ہوں، (یعنی ان کا تعلق ضروری غذا سے ہو) اور ذخیرہ اندوزی بھی ایسی ہو کہ جس سے معاشرے کے افراد تکلیف میں آجاتے ہیں، دام مصنوعی طور پر بڑھ جاتے ہیں یا دام بڑھنے کی صورت میں ان اشیا کی فروخت بند کردی جاتی ہے، جبکہ لوگوں کو اس کی طلب ہوتی ہے، اسلام میں ایسی ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے۔

احادیث شریف میں اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’الجالب مرزوق، والمحتکر ملعون‘‘ (سنن ابن ماجہ: باب الحکر والجلب)۔ ترجمہ: تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ کرنے والا ملعون ہے‘‘۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس شخص نے مسلمانوں میں گراں فروشی کی تو اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اسے قیامت کے دن بہت بڑی آگ میں ڈال دے۔ (سنن کبری بیہقی: 10855)۔ البتہ اگر معاشرے میں اس چیزکی ضرورت پوری ہو رہی ہو اور مقصود لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کرکے زائد نفع خوری نہ ہو، بلکہ صرف اس شے کو زائد مقدار میں خرید کر رکھا جائے، سیزن کے علاوہ بھی لوگوں کی طلب پر اس شے کو روکا نہ جائے یا اس چیز کا تعلق غذائی ضرورت سے نہ ہو تو اس صورت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے۔

جامعہ مسجد الیاس کے امام و خطیب مولانا امجد جروار نے بتایا کہ فقہا نے ایک اصول مقرر فرمایا ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ان کی زندگی کی ضروریات اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ ایک دوسرے کی ضروریات میں تعاون نہ کریں۔ اسی بنا پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ہر اعتبار سے احترام کرے۔ چناچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو جب دین کی دعوت دی تو اس میں ایک بنیادی نکتہ یہ بھی تھا کہ وزن اور پیمانے پورے کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو (سورۃ اعراف)۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں حکم رب تعالی ہے: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ (سورۃ النسا)۔ اس آیت میں باطل طریقوں سے ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی بھی شامل ہے۔

ایسی ذخیرہ اندوزی جس سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، ایسی ذخیرہ اندوزی کی ممانعت آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حدیث نبویؐ ہے کہ جو شخص گرانی اور مہنگائی کی غرض سے غلہ اور دیگر اشیا ذخیرہ کرتا ہے، وہ گناہ گار ہے۔ (مسلم شریف)۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے کہ ایسا شخص انتہائی برا ہے، اللہ تعالیٰ غلہ کو سستا کر دے تو وہ افسردہ ہوجائے اور (اگر غلہ) مہنگا ہو جائے تو وہ خوش ہوجائے (مشکوۃ)۔ مولانا امجد نے بتایا کہ اکثر رمضان کا بابرکت مہینہ خصوصاً پاکستان میں کمائی کا سیزن سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان تاجر کھانے پینے سے لے کر استعمال کی اشیا تک مہنگی کر دیتے ہیں۔ ہر شخص چاہے وہ درزی ہو یا نائی، اس ماہ کو کمانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اسلامی احکامات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس تاجر کی مثل بن جائیں جس کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچا اور امانت دار تاجر انبیاؑ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔

جامعہ حدیقۃ العلوم کے بانی مولانا عبدالقیوم نے بتایا ’’حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: تاجر کو رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص کہیں باہر سے شہر میں غلہ وغیرہ لاتا ہے کہ اسے موجودہ اور رائج نرخ پر فروخت کرے اور گراں فروشی کی نیت سے اس کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے، اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے۔ یعنی اسے بغیر گناہ کے فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا کی جاتی ہے۔

اس کے برخلاف مخلوق خدا کی پریشانیوں اور غذائی قلت سے فائدہ اٹھا کر غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور خیر و بھلائی سے دور رہتا ہے۔ جب تک وہ اس لعنت میں مبتلا رہتا ہے، اس کو برکت حاصل نہیں ہوتی۔ مولانا عبدالقیوم نے کہا ’’رمضان نیکیوں کا سیزن ہے اور کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان سے خیر خواہی کرنا بھی ایک عظیم الشان نیکی ہے۔ جس کی قدر و قیمت رمضان کے مہینے میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہذا تاجر حضرات اشیائے خور و نوش جو اس مہنگائی میں غریب دسترس سے کافی دور ہے، سستی کردیں گے تو غربا کے بچوں کی افطاری بھی بہت اچھی ہو جائے گی ۔