نواز طاہر :
پنجاب کے کئی اضلاع میں ژالہ باری، کسانوں کے لیے بمباری ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ اب پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور وفاقی حکومت کی سطح پر بھی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لیکن متاثرہ کاشت کار بے یقینی کا شکار ہیں۔
محمود اور مقصود احمد نامی کاشت کار پنجاب کی مشرقی سرحد سے نو میل دور گائوں کوٹ آہدیاں کے رہائشی ہیں۔ ان کی فصلوں پر ستائیس اور اٹھائیس فروری کو گرنے والے اولوں نے قیامت ڈھا دی۔ یہ اولے صرف اسی گائوں ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے دیہات کوٹلی ، سیہول ، کرتو پنڈوری ، بھونڈری ، آہدیاں کالا خطائی ، ڈھینگرانوالی اور نارنگ کے علاقوں پر بھی پڑے اور میلوں تک کھڑی تمام فصلیں ملیامیٹ ہوگئیں۔ اس روز صرف ضلع شیخو پورہ ہیں نہیں گوجرانوالہ ( تحصیل کامونکی و نوشہرہ ورکاں) حافظ آباد سمیت کئی اضلاع کے 80 سے زائد دیہات پر یہ قیات ٹوٹی ، جس کے نتیجے میں موضع آہدیاں کے دو کسانوں کو دل کا دورہ پڑا اور کوٹ آہدیاں کے ایک کسان کی بیوی نیم پاگل ہوگئی۔
اس تباہی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اس قدر وائرل ہوئی کہ بیرون ملک سے فون کرکے بھی اپنے رشتے داروں کو پرسہ دے رہے ہیں۔ جن بڑے زمینداروں کی میلوںکھڑی گندم بے جان ہوکر زین بوس ہوئی ان میں سابق وزیر تعلیم بریگیڈیئر (ر) ذوالفقار علی ڈھلوں (مرحوم)، سابق پارلیمانی پارلیمانی سیکریٹری عمر آفتاب ڈھلوں، خرم گلفام ، اعجاز احمد سیہول اور گذشتہ سال گندم کی خریداری نہ کیے جانے پر اپنی ہی جماعت کی حکومت کے خلاف سخت موقف رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے رکن احمد حسان ریاض بھی شامل ہیں۔ یہاں پر تین دیہات کی سو مربع سے زائد اراضی پر کھڑے پاک آرمی کے جنگلات کے پتے بھی جھڑ گئے اور سفیدے کے لمبے لمبے درختوں پر سبزہ ختم ہوگیا۔ یہ اراضی نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں پاک فوج کو پانچ سال کے لئے جنگلات اگانے کیلئے الاٹ کی گئی تھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کالا خطائی ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ٹرین کا ایک مسافر دوسری پٹری سے دھنی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح اٹھاتا ہے اور دکھاتا ہے کہ دور تک تاحدِ نگاح سفیدہ ہی سفیدہ ہے جو ہر چیز برف سے ڈھکی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں علوم تاریخ میں کبھی برف نہیں پڑی لیکن ژالہ باری اتنی ہوئی ہے، جیسی کوہ ہندوکش پر برفباری کی چادر دکھائی دیتی ہے۔ اس سے پہلے اس علاقے کے ایک حصے پر پچاس سال قبل طوفانی کے ساتھ شدید ژالہ باری ہوئی تھی اور نصف شہر تباہ ہوگیا تھا، اس طوفان میں ویٹ تھریشر تک دو فرلانگ تک اڑ کر تھانے کے قریب جاگری تھی۔
صوبائی حکومت کی طرف سے اس بڑی تباہی پر تاحال کسی کی خبرگیری نہیں کی گئی۔ تاہم کچھ دیہات میں سنا جارہا ہے کہ پٹواری اس متاثرہ اراضی کا سروے کررہا ہے تاکہ اسے آفت زدہ قراردیا جا سکے اور پھر حکومت ایک طویل پراسیس کے بعد کسانوں کیلئے امدادی رقم کا فیصلہ کرے ۔ اس ضمن میں اس حلقے سے پنجاب اسمبلی کے رکن حسان ریاض نے بتایا ہے کہ وفاقی وزیرپیداوار رانا تنویر حسین ( جن کی اپنی فصل بھی متاثر ہوئی ہے ) بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں اور میں نے بھی اس علاقے کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے خصوصی نمائندے صوبائی وزیر خزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن سے بات کی ہے اور درخواست وزیراعلیٰ کو پہنچ گئی ہے۔
اب یہ معاملہ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے دیکھنا ہے جو اپنے طے شدہ مروجہ طریقِ کار کے مطابق سروے کرکے رپورٹ مرتب کرے گی جس کے مطابق متاثرین کیلئے پیکیج تیار کیا جائے گا۔لیکن مقصود احمد کہتے ہیں کہ پٹواری کے سروے سے وہ کچھ نہیں مل سکتا جو اللہ تعالیٰ دے سکتا ہے۔ مقصودکا کہنا ہے کہ اس علاقے میں گندم کے پیداوری اخراجات تقریباً ستر ہزار روپے فی ایکڑ ہیں۔ زیادہ تر کسانوں نے پیداواری عوامل آڑھتی سے ادھار د پیسے لے کر استعمال کیے، فصل بھی گئی اور آڑھتی کا ادھار بھی سر پر کھڑا ہے۔ مقصود اور محمود کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے عام آدمی کے بارے میں کیا سوچنا۔ جب فصلیںتباہ ہورہی تھیں تو کابینہ کے اراکین کی تعداد بڑھائی جارہی تھی۔ گندم کی حالت یہ ہوئی ہے کہ اب لوگوںنے ٹَک ( مویشیوں کے چارے کے لئے کاٹنا شرو ع کردی) لگا دیا ہے۔ لیکن اولے پڑنے کے بعددھوپ سے یہ تباہ شدہ گندم ایسی ہوچکی ہے کہ اب تو جانوروں کو بھی اس کی سڑاند (جلنے کی بو) آتی ہے اوہ بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔