عمران خان :
ایف آئی اے نے مصطفی عامر قتل کیس کے مرکزی کرداروں ارمغان اور شیراز کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت انکوائری تیزی سے مکمل کرنی شروع کردی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے اندر یہ انکوائری مکمل کرکے منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرلیا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انکوائری میں مقتول مصطفی عامر کے بینک اکائونٹس کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ملزمان بنگلے میں ہونے والی رنگین محفلوں کو محفوظ بنانے کیلئے باقاعدہ رجسٹرڈ بائونسرز کمپنی کی خدمات حاصل کیے ہوئے تھے۔
ایف آئی اے کی ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ ملزم ارمغان انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر ہے اور شعیب شیخ کے معروف زمانہ سافٹ ویئر ہائوس ایگزیکٹ کا سابق ملازم رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایف آئی اے کو تاحال پولیس کی کارروائی میں ابتدائی طور پر ضبط کیے گئے لیپ ٹاپ، موبائل فونز سمیت دیگر آلات فارنسک چھان بین کیلئے موصول نہیں ہوئے۔ جس میںکرپٹو کرنسی کی وہ مائننگ مشین بھی شامل ہے، جو ملزم کے گھر سے ملی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایف آئی اے نے ملزم ارمغان کے اکائونٹس کی تحقیقات کیلئے متعلقہ اداروں سے رجوع کرلیا ہے۔ ان اکائوٹنس کی تفصیلات آنے کے بعد منی لانڈرنگ سے متعلق تحقیقات میں بھی ان اثاثوں اور جائیدادوں کو ابتدائی طور پر 90 روز کیلئے منجمد کردیا جائے گا۔ تاکہ ان کی ملکیت تبدیل نہ کی جاسکے۔ جبکہ منی لانڈرنگ سے متعلق بھی تحقیقات ہوگی۔ کیس کی تفتیش سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔
اس سے قبل گزشتہ روز ایف ائی اے اینٹی منی لانڈرنگ کی ٹیم نے ملزم ارمغان کے گھر کی تلاشی لی تھی۔ جس میں 18 لیپ ٹاپ سمیت ملنے والی اشیا کا مکمل سیزر میمو مرتب کیا گیا۔ ملزم کے گھر کی مکمل تلاشی کے دوران ایک قیمتی اوڈی کار، 18 لیپ ٹاپ اور دیگر اہم دستاویزات کو تحویل میں لیا۔ ایف آئی اے ارمغان سے پہلے بھی ایک غیر رسمی ملاقات کرچکی ہے۔ سرچ آپریشن کے بعد گھر سے برآمد سامان سے ایف آئی اے کو کیس میں مدد حاصل ہوگی۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ارمغان ایک نہایت ہی ہوشیار اور چالاک لڑکا ہے۔ جس نے ایسی صورتحال کیلئے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ ذرائع نے کہا، ارمغان جیسے ملزم ڈیجیٹل فٹ پرنٹس نہیں چھوڑتے۔ برآمد دستاویزات سے کئی شواہد سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی اے کو اب اتنا مٹیریل مل چکا ہے کہ بآسانی کیس پر کام کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ارمغان کی گرفتاری کے بعد ہی اگر تحقیقات ہوتی تو کیس جلد ٹریس ہوتا۔ چھاپہ مار ٹیم کی جانب سے 11 صفحات پر مشتمل سیزر میمو بنایا گیا۔ جس کے مطابق تلاشی کے دوران گھر سے اوڈی ای ٹرون گاڑی، 18 لیپ ٹاپس، گرفک کارڈ، فور جی بولٹ ڈیوائس، ایما اور آئڈہ کمپنی کی چیک بکس اور کئی علیحدہ چیک بھی ملے۔ اس کے علاوہ متعدد شناختی کارڈز کی کاپیاں، بینک کو لکھے گئے لیٹرز اور صدیقی سیکیورٹی سروس کے گارڈز کا اتھارٹی لیٹر ملا اور تلاشی کے دوران کامران اصغر قریشی کے نام کے اسلحہ لائسنس کی کاپی بھی ملی اور اسلحہ لے کر چلنے کا پرمٹ بھی ملا۔ سرچ آپریشن میں متعدد انوائسز، سیل اور ٹیکس سرٹیفکیٹ اور دستاویزات کے ساتھ ارمغان کے نام پر ایگزٹ کمپنی کا اپوائنٹمنٹ لیٹر بھی ملا۔
سیزر میمو کے مطابق آن لائن فراڈ سے متعلق ایک اسکرپٹ کی کاپی بھی گھر سے ملی جبکہ کئی افراد کی سی ویز، جاوید اینڈ کامران بائونسر اسکواڈ سے معاہدے کی کاپی بھی ملی۔ تلاشی کے دوران ارمغان اور کامران قریشی کے آن لائن اکائونٹس کی ڈائری کے ساتھ ارمغان اور کامران قریشی کے کئی ویزا اور ڈیبٹ کارڈ بھی گھر سے ملے، جوبینک آف امریکہ اور دیگر بینک کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔ مجموری طور پر سیزر میمو میں 98 اشیا کو ضبط کرنے کی فہرست منسلک کی گئی ہے۔
ذرائع کے بقول ابھی بھی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو تحقیقات میں مشکلات کا سامامنا ہے۔ کیونکہ ملزمان کے خلاف کارروائی میں پولیس ٹیموں کی جانب سے ابتدائی طور پر جو آلات، لیپ ٹاپ اور موبائل فونز ارمغان کے گھر سے ملے تھے، وہ فارنسک چھان بین کو آگے بڑھانے کیلئے ایف آئی اے کو موصول نہیں ہوسکے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس اسکینڈل کی تحقیقات میں بیک وقت پولیس کی تفتیشی ٹیموں کے ساتھ ابتدا ہی سے وفاقی حساس ادارہ کی ٹیمیں شامل ہیں۔ اس لئے ملنے والے آلات اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر شواہد مختلف جگہوں پر بکھرے پڑے ہیں اور ان کو ابھی تک ایک جگہ پر جمع کرکے فارنسک تجزیے کیلئے نہیں بھجوایا جاسکا ہے۔
خدشہ ہے کہ اس طرح مختلف جگہوں پر اسلحہ، لیپ ٹاپ، موبائل فونز اور دیگر آلات کی موجودگی شواہد کو متاثر سکتی ہے۔ تاہم کوشش کی جا رہی ہے کہ جلد تمام تفتیشی ٹیموں سے یہ شواہد ایک جگہ اکٹھے کیے جاسکیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ارمغان کے گھر کی تلاشی کے دوران سب سے اہم چیز وہ مائننگ مشین تھی جو کرپٹو کرنسی کی پیداوار یعنی مائننگ کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
اس مشین کا ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے حوالے ہونا اور اس کا فارنسک تجزیہ سب سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملزم ارمغان نے ایگزیکٹ کے سافٹ ویئر ہائوس میں اپنی ملازمت کے دوران جو تجربہ استعمال کیا۔ اس کو مائننگ مشین کے ذریعے بھرپور طور پراستعمال کیا گیا۔