محمد قاسم :
غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی میں تیزی آگئی۔ ا 15ستمبر 2023ء سے اب تک وطن لوٹنے والوں کی مجموعی تعداد 8 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔جبکہ پشاور سمیت صوبے بھر میں افغانوں نے اپنی جائیدادیں فروخت کرنے کیلئے پراپرٹی ڈیلرز سے رابطے شروع کر دیے اور اپنا کاروبار سمیٹ کر وطن واپس جانے کی تیاری شروع کر دی۔
جڑواں شہروں سے بیدخلی پر افغانوں کی بڑی تعداد پشاور پہنچ گئی۔ جبکہ حکومت نے بھی پاکستان میں مقیم افغانوں کو 31 مارچ 2025 ء تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن کی واپسی کا فیصلہ 15 ستمبر 2023ء کو کیا گیاتھاجس کے بعد سے خاص کر پشاور سمیت صوبے بھر میں مقیم افغانوں نے اپنے وطن واپس جانے کے لئے جائیدادوں کی فروخت شروع کی۔ تاہم اس بار حکومت پاکستان نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو بھی 31 مارچ 2025ء تک کا وقت دیا ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر باعزت طریقے سے اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ ان کی صحت سمیت خوراک و دیکھ بھال کا پورا خیال کیا جائے گا جس کے بعد پشاور سمیت صوبے بھر میں افغانوں نے اپنا کاروبار سمیٹنا شروع کر دیا ہے اور جائیداد فروخت کرنے کیلئے پراپرٹی ڈیلرز سے رابطے کئے ہیں۔تاہم پشاور اور صوبے بھر میں پراپرٹی کا کاروبار بالکل ٹھپ ہو چکا ہے اور نت نئے ٹیکسوں سمیت عوام نے اپنا پیسہ دیگر کاروبار میں لگایا ہے جس کی وجہ سے پراپرٹی بالکل ڈائون ہے اور جس ریٹ پر جائیدادیں، یا گھر کاروبار کے لئے دکانیں افغانوں نے خریدی تھیں ان کو وہ ریٹ نہیں مل رہے۔
ایک افغان تاجر یوسف کابلے نے بتایا کہ وہ گزشتہ کئی عرصے سے پشاور میں کاروبار کر رہے ہیں اور اپنی کی اپنی دکانیں و گودام بھی ہے جبکہ گھر بھی ہے اب حکومت کی جانب سے انہیں وطن واپس جانے کے لئے 31مارچ کی تاریخ دی گئی ہے اور اس صورتحال میں کہ پراپرٹی کا کاروبار بالکل تباہی سے دوچار ہے۔ ان کو تمام جائیداد فروخت کرکے نفع کے بجائے نقصان ہونا ہے اور دو سے تین پراپرٹی ڈیلرز سے بھی رابطہ ہوا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ جس ریٹ پر جائیداد خریدی گئی تھی اس سے آدھے پر بھی اگر فروخت ہو جائے تو غنیمت ہے جس سے وہ کافی پریشان ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں انہوںنے بہت کاروبار کیا اور یہاں کی حکومت نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا ہے اب جبکہ تمام افغان اپنے وطن واپس جا رہے ہیں تو ان کی بھی کوشش ہے کہ عید الفطر اپنے وطن افغانستان میں گزاریں۔ پراپرٹی کے کاروبار سے وابسطہ ملک سلمان نے بتایا کہ ان سے کئی افغان باشندوں نے کاروبار و جائیداد کی فروخت کے حوالے سے رابطے کئے ہیں تاہم جو ریٹ پشاور میں چل رہے ہیں اس پر وہ راضی نہیں اس لئے ان کو کہا ہے کہ آپ کسی اور پراپرٹی ڈیلر سے رابطہ کر لیں۔ کیونکہ پشاور میں زیادہ تر افراد پراپرٹی خریدنے کے بجائے اب دیگر کاروبار میں دلچسپی لے رہے ہیں اور یہاں پر یہ کاروبار رک چکا ہے۔
اسی طرح مضافاتی علاقوں میں تین لاکھ روپے فی مرلہ زمین جو افغانوں نے پچھلے دو سے تین سال میں خریدی تھی اب اس کی قیمت کم ہو کر ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے فی مرلہ تک پہنچ چکی ہے اور دو لاکھ روپے فی مرلہ بھی بڑی مشکل سے مل رہے ہیں۔ یہ زمین بڑے پیمانے پر افغانوں نے خرید کر مویشیوں کو رکھنے سمیت کرائے پر دی تھی۔ دوسری جانب ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد خالی کرنے کی ہدایات کے بعد جڑواں شہروں میں غیر قانونی طورپر رہائش پذیر افغان خاندانوں اور افراد نے پشاور اور صوبے کے دیگر اضلاع کا رخ کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ 26 نومبر کے احتجاج میں افغان باشندوں کی ایک مرتبہ پھر گرفتاری کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں مقیم تمام افغانوں کو جڑواں شہر چھوڑنے کا حکم جاری کیاگیا تھا، جس کے تحت 28 فروری کی تاریخ دی گئی اور یکم مارچ کے بعد ان کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور صرف ان افغان پنا ہ گزینوں کو دونوں شہروں میں رہنے کی اجازت دی گئی جن کے پاس پاکستان کا موثر ویزا موجود ہو گا اور وہ افغان مہاجرین جو کسی دوسرے ملک مقیم ہونے کے انتظار میں ہیں کو 28 مارچ تک ان دونوں شہروں میں رہنے کی اجازت ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانوں کی بہت بڑی تعدا د نے پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کا رخ کیا تاہم اب یہاں سے بھی 31 مارچ 2025ء تک ان کو اپنے وطن واپس جانے کی تاریخ دے دی گئی ہے ۔