سید نبیل اختر :
صوبائی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی حالیہ دنوں جاری ہونے والی رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ بعض ہربل پروڈکٹس میں ایلو پیتھی طریقہ علاج کے ایسے کیمیکل شامل کیے جارہے ہیں۔ جن سے گردے فیل اور سانسوں کی نالی سکڑنے سے اموات ہوسکتی ہیں۔
صوبہ بھر کے ڈرگ انسپکٹرز کی جانب سے ایک سو کے لگ بھگ ہربل ادویات کے پروڈکٹس صوبائی لیبارٹری بھیجے گئے تو جانچ پر معلوم ہوا کہ 9 پروڈکٹس میں اسٹیرائیڈ (کارٹیزون)، سی پی ایم اور تیزابیت دور کرنے والا کیمیکل فاموٹائیڈائن شامل کیے جاتے ہیں۔ چکن گونیا میں استعمال ہونے والا پین نل بھی اسٹیرائیڈ سے بھرا ہوا ہے۔ تاہم ملک بھر میں فروخت ہونے والا یہ غیر رجسٹرڈ پروڈکٹ کبھی ڈرگ انسپکٹرز کو کسی بھی میڈیکل اسٹور سے نہیں ملا۔ پین نل نامی پروڈکٹ گزشتہ چھ ماہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ادویات میں شامل ہے۔ اس پروڈکٹ کی جانچ ہی نہیں کرائی گئی۔ چکن گونیا کے بعد زیادہ تر گھٹنوں اور کمر کے درد میں مبتلا بزرگ استعمال کر رہے ہیں۔
چکن گونیا میں استعمال ہونے والی پین نل نامی ایک غیر رجسٹرڈ دوا کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ اس کے کروڑوں پیکٹ کراچی سمیت ملک بھر میں فروخت کیے گئے ہیں اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اس دوا کی اب تک جانچ بھی نہیں کرائی ہے۔ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق موسمی بیماریوں میں اسٹیرائیڈ کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم پین نل میں اسٹیرائیڈ کی کتنی مقدار شامل ہے، اس حوالے سے بھی ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
اس ضمن میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کے ڈائریکٹر سید عدنان رضوی نے بتایا کہ ڈرگ انسپکٹرز کی جانب سے پین نل جانچ کیلئے لایا ہی نہیں گیا۔ تاہم ہم نے 100 کے لگ بھگ ہربل پروڈکٹس کی جانچ کی ہے۔ جس میں نو پروڈکٹس میں ایلوپیتھی کیمیکلز پائے گئے۔ یہ پروڈکٹس ڈریپ میں رجسٹرڈ بھی نہیں۔ تاہم مارکیٹ میں ایسے پروڈکٹس کی موجودگی انسانی جانوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ ان پروڈکٹس میں کارٹیزون بھی پایا گیا۔ جس سے گردے ناکارہ ہو جاتے ہیں اور مریض ڈائلیسس پر چلا جاتا ہے۔ ان ہربل پروڈکٹس میں پرانی کھانسی اور فلو کے علاج کیلئے سی پی ایم، تیزابیت کے خاتمے کیلئے فاموٹائیڈائن اور درد میں کمی کیلئے کارٹیزون نامی کیمیکل شامل کیا جارہا ہے۔ یہ کیمیکل ملی ادویات غیر قانونی طور پر فروخت کی جارہی ہیں۔ جس کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ایک سابق ڈرگ انسپکٹر نے بتایا کہ ہربل ادویات میں کارٹیزون (اسٹیرائیڈ) کا استعمال برسوں سے کیا جارہا ہے۔ جس سے گردوں کے امراض خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ بڑی کمپنیاں اب کیمیکل شامل کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ تاہم چھوٹے مطب اور حکیم کچھی گلی میڈیسن کی ہول سیل مارکیٹ سے مذکورہ کیمیکل کی گولیاں خرید کر اپنی پروڈکٹس بنانے میں مصروف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض بڑی کمپنیوں کی جانب سے ان کے پروڈکٹس میں کیمیکل کے اجزا شامل ہونے کی شکایت پر بتایا گیا ہے کہ ان کے فارماکوپیا (دوا بنانے کے طریقے) میں بھی ان اجزا کو شامل کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی مثال ہربل پروڈکٹ میں ایفیڈرین کی موجودگی کو حکمت سے جڑے طبیب ایفی ڈرال پلانٹ کے پتوں سے تیار ہونے والے پروڈکٹ سے جوڑتے ہیں۔ جو ان کی دوا میں استعمال کرنے کو قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔ تاہم ایسے اجزا انتہائی کم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیرائیڈ کے استعمال میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔ جس میں نیورو فزیشن کے پاس متاثرہ مریضوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ایک سینئر ڈرگ انسپکٹر کا کہنا ہے کہ اسٹیرائیڈ کے سائیڈ افیکٹ دس بیس سال بعد نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں جب دوا کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ جو افراد ابھی اسٹیرائیڈ کے استعمال سے شفا پارہے ہیں۔ انہیں عمر کے بڑھنے کے بعد اس کے سائیڈ افیکٹ ہوں گے جو جان لیوا ہوسکتے ہیں۔
’’امت‘‘ نے دو ماہ قبل چکن گونیا میں استعمال ہونے والی دوا پین نل کے حوالے سے چیف ڈرگ انسپکٹر کو تحریری طور پر بتایا کہ اس دوا کی جانچ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے استعمال سے شدید درد میں فوری کمی ہوتی ہے، جس سے خدشہ ہے کہ اس پروڈکٹ میں کارٹیزون شامل ہے۔ تاہم چیف ڈرگ انسپکٹر نے ایک ماہ گزرنے کے باوجود پین نل کی کوئی جانچ نہیں کرائی اور کہا کہ ایسا کوئی پروڈکٹ ہمیں مارکیٹ میں نہیں ملا۔ یہ پین نل کی گولیاں کروڑوں کی تعداد میں چھ ماہ میں فروخت کی گئیں۔ جس کی پہلے قیمت سو روپے تھی اور ڈیمانڈ زیادہ ہونے پر تین سو روپے تک فروخت کی گئیں۔
دوسری جانب صوبائی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی تین ماہ کی جانچ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک سو پچیس پروڈکٹس ایسی ہیں۔ جو جانچ میں جعلی، غیر معیاری، غیر اندراج شدہ اور ہربل کے نام پر کیمیکل کی ملاوٹ کے ساتھ تیار کرکے فروخت ہو رہی تھیں۔ یہ دوائیں پاکستان میں تیار کی گئیں۔ ان کے پاس ادویات کی تیاری اور فروخت کا لائسنس بھی ہے اور ماہانہ کروڑوں روپے کی ادویات فیکٹریوں میں تیار کر کے فروخت کی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ سیمپلز ڈرگ انسپکٹرز نے میڈیکل اسٹوروں سے اٹھائے اور انہیں جانچ کیلئے بھجوا دیا۔ جو لیبارٹری چیکنگ کے دوران ’’فیل‘‘ ہو گئیں۔ ایبٹ لیبارٹریز، مارٹن ڈائو، بوش، امروز، کراچی کیمیکلز اور سی کے ڈی فارماسیوٹیکلز میں تیار دوائیں ’’دوا کی مطلوبہ مقدار‘‘ موجود نہ ہونے کے باوجود مارکیٹ میں پھیلائی گئیں۔ ڈرگ ایکٹ کے مطابق ایسی دوا کے فروخت کنندگان کے لائسنس منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔ تاکہ وہ مستقبل میں شہریوں کو دوا کے نام پر زہر فروخت نہ کریں۔
جان بچانے والی ادویات کی جانچ پڑتال کی گئی تو پتا چلا کہ ٹیبلٹ Logiflox، 500 ملی گرام میں کیمیکل Levoflaxacin محض 77 فیصد موجود ہے۔ دوا میں کیمیکل کی حد 90 سے 110 کے درمیان ہونا ضروری ہے۔ بصورت دیگر دوا مریض کے کسی کام نہیں آتی۔ اسی کمپنی کا دوسرا سیمپل kesmo کیپسول جانچ کیلئے لایا گیا۔ دوا کی جانچ پر کیمیکل Esomeprozole محض 53 فیصد پایا گیا۔ جس پر یہ دوا بھی فیل قرار دے دی گئی۔ تیسرا سیمپل Cipex، 500 ملی گرام ٹیبلٹ کا جانچ کیا گیا۔ اس میں دوا کے کیمیکل Ciprofloxacin صرف 81 فیصد پایا گیا۔ کم مقدار کے باعث دوا کو غیر معیاری قرار دیدیا گیا۔ Kayfix DS سسپنشن میں کیمیکل Cefixime کی مقدار کو محض 78 فیصد پایا گیا۔ جس کی وجہ سے یہ دوا بھی غیر معیاری قرار دی گئی۔ اسی طرح Kayfix سسپنشن میں صرف 69 فیصد Cefixime پایا گیا اور دوا کو فیل کر دیا گیا۔