ڈیرے پر رکنے والوں نے عید بعد شادیوں کے سیزن سے کمائی کی امید لگا لی، فائل فوٹو
ڈیرے پر رکنے والوں نے عید بعد شادیوں کے سیزن سے کمائی کی امید لگا لی، فائل فوٹو

کراچی میں ڈھولچیوں کا رمضان سیزن ٹھپ ہوگیا

اقبال اعوان :

کراچی میں ڈھولچیوں کا رمضان سیزن ٹھپ ہوگیا ہے۔ شہریوں کی عدم دلچسپی کے باعث ان کی بہت کم تعداد سحری جگانے آرہی ہے۔ بعض افراد عید گزارنے آبائی گائوں چلے گئے اور دیگر ڈھولچی ڈیروں پر وقت گزار رہے ہیں کہ رمضان کے بعد شادی سیزن بھرپور ہونے کی امید ہے۔

واضح رہے کہ کراچی میں پنجاب کے مختلف شہروں صادق آباد ، رحیم یار خان ، ملتان ، فیصل آباد ، مظفر گڑھ ، علی پور سمیت دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے ڈھولچی روزگار کے لئے آتے ہیں۔ جبکہ عرصہ دراز سے ہزارہ وال ڈھولچی بھی یہاں آباد ہیں۔ پشتو اور ہزارہ وال کی آبادیوں میں ان کے ڈیرے ہیں جہاں یہ ڈھول کرایے پر بھی دیتے ہیں اور شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات میں بک کرانے پر جاتے ہیں۔

پہلے کراچی میں بینڈ باجوں کے بغیر بارات کا تصور نہیں ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بینڈ باجے والوں کا روزگار ختم ہوگیا اور مہنگائی نے یہ رواج ڈھول والوں تک محدودکردیا۔ یہ چوراہوں، بس اسٹاپ، شادی ہالز کے قریب شام کو آکر ڈیرہ جمالیتے ہیں۔ پیلے ، گلابی کرتے اور دیگر رنگ برنگے لباس میں ڈھول رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہلکی ہلکی تھاپ پر ڈھول بجاتے ہیں کہ لوگوں کو متوجہ کرسکیں اور لوگ ان کو بک کرکے لے جاتے ہیں۔ اس طرح سال بھر ان کا سیزن چلتا ہے۔ محرم کے ماہ کے دوران کام بند کردیتے ہیں اور رمضان کے دوران ثواب اور روزی روٹی کے لئے سحری جگانے کا کام کرتے ہیں۔ اب راتوں کو موبائل فون پر الارم لگا کر لوگ خود اٹھتے ہیں جبکہ بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ شہری راتوں کو پانی کا بھی انتظار کرتے ہیں۔

ماضی میں لوگ تراویح کے بعد آرام کرتے تھے تو سحری جگانے والا آتا تھا، تب اٹھتے تھے ۔ کالا پل کے ڈھولچی رفیق کا کہنا ہے کہ 2008ء میں لسانی فسادات کے بعد ان کا روزگار کم ہوا تھا اور اس موبائل اور نیٹ آنے کے بعد مزید ختم ہوگیا۔ اب ڈیفنس میں جگانے جاتے ہیں۔ آج کل کے نوجوان ان کے ساتھ سیلفی بنواتے ہیں اور ویڈیو بناتے ہیں ۔ مگر کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ سحری کرو گے۔ سحری بند ہونے کے ٹائم سے لگ بھگ دو ڈھائی گھنٹے کا وقت رکھتے ہیں اب علاقہ میں جاکر واپس ڈیرے پر آکر سحری کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مجبور ہوکر قریبی ہوٹل پر جاکر پراٹھا چائے لے کر سحری کرتے ہیں۔ عید پر بھی کوئی چند روپے تک دینا گوارہ نہیں کرتا ہے۔

ناتھا خان گوٹھ کے ڈھولچی اکمل کا کہنا تھا کہ رمضان سیزن گزشتہ 10/12 سال قبل سے کم ہوا ہے۔ پہلے جگانے جاتے تھے تو لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ سحری کراتے تھے اور بعض دوسرے یا تیسرے عشرے میں راشن دیتے تھے اور عید پر سوٹ ، نقد رقم دیتے تھے۔ اس طرح ڈھولچیوں کو رمضان میں بے روزگار نہیں ہونا پڑتا تھا۔ ان کے ڈیروں کے کرائے ، گھریلو راشن اخراجات پورے ہوجاتے تھے۔

بعض لوگ ایک دن دیر سے جانے یا بیماری کی صورت میں نہ جانے کا گلہ شکوہ کرتے تھے کہ تمہاری وجہ سے بغیر سحری کے روزہ رکھا اور آنکھ نہیں کھلی کہ ڈھول کہ عادت پر گئی تھی۔ لوگ خوش ہوتے تھے اور عید کی صبح ہم عید پڑھ کر جاتے تھے تو خوب آئو بھگت ہوتی تھی۔ ہم لوگ رات بھر ڈیرے پر جاگتے تھے کہ آنکھ نہ کھلی تو مسئلہ ہوگا۔ رات ڈھائی بجے تیاری کرکے نکل آتے تھے اور فجر کی نماز پڑھ کر ڈیرہ پر آکر سوتے تھے۔ جدید دور نے شہریوں کی دلچسپی ختم کردی ہے۔ اب ثواب کی نیت سے نکل پڑتے ہیں اور انتہائی کم مدد کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ڈھولچی منہ سے مانگے تو لوگ بولتے ہیں کہ تمہارے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بلکہ گلی کے کونے پر موبائل لے کر موجود نوجوان یا لڑکے منع کردیتے ہیں کہ دوسری گلی میں جاکر ڈھول بجائو۔ کراچی میں لگ بھگ 10 ہزار ڈھولچی رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔