نمائندہ امت :
رواں سال موسم سرما میں معمول سے کم بارشیں ہونے کے باعث ملک بھر میں خشک سالی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بارشیں کم ہونے کے باعث ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ دو دن کے بعد تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر آجانے کے باعث دریائے سندھ میں پانی رن آف ریور کی صورتحال پر چلا جائے گا۔ یعنی ڈیم میں جتنے پانی کی آمد ہوگی، اسی مقدار میں اخراج ہوگا۔ نہری پانی کی قلت کی باعث کپاس کی فصل زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ اس سے گندم اور چاول کی فصل بھی متاثر ہوگی۔
اس صورتحال میں سندھ اور پنجاب کے درمیان روایتی طور پر ایک دوسرے کا پانی چوری کرنے کے الزامات کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے پنجاب کے بیراجز پر مانیٹرنگ کے لئے تعینات کردہ تقریباً 55 ملازمین کو 9 ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث پانی کی مانیٹرنگ کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔
اس ضمن میں محکمہ آبپاشی و ارسا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ربیع کی فصلوں کے لئے زیادہ تر انحصار گرمیوں میں یعنی خریف کے دوران ڈیموں میں ذخیرہ شدہ پانی پر ہوتا ہے۔ لیکن رواں سال موسم سرما میں بارشیں کم ہونے کے باعث ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ ارسا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز تربیلا ڈیم 14 سو 6 فٹ تھی اس طرح مذکورہ ڈیم اپنے 14 سو 2 فٹ کے ڈیڈ لیول سے صرف تین فٹ اونچا ہے۔
آئندہ دو روز کے اندر مذکورہ ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر آجائے گی، جس کے بعد تربیلا ڈیم میں موجود مزید پانی کا دریا میں اخراج کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ ایسی صورتحال میں ڈیم میں دریائے سندھ کے جتنے پانی کی آمد ہوگی، اتنے ہی پانی کا اخراج کیا جائے گا، جس سے صورت حال رن آف ریور کی ہوجائے گی۔ اس طرح منگلا ڈیم میں بھی صرف 27 فٹ پانی کی گنجائش رہ گئی ہے۔ چند روز کے بعد وہاں بھی صورت حال رن آف ریور کی ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد 14 ہزار 200 کیوسک تھی۔ پانی کا اخراج 20 ہزار کیوسک تھا۔ لیکن دو دن کے بعد یہ صورتحال نہیں رہے گی۔ محکمہ آبپاشی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات میں رواں ہفتے ملک کے شمالی علاقہ جات میں بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ بارشوں کی صورت میں دریائے سندھ میں پانی کی مقدار تھوڑی بہت بڑھ سکتی ہے۔ بصورت دیگر نہری پانی کی شدید قلت کے باعث سندھ میں اوائلی خریف کی فصلیں شدید متاثر ہوں گی جن میں سے سب سے زیادہ کپاس کی فصل شامل ہے۔ اس کا اثر جزوی طور پر چاول (دھان) کی فصل پر بھی پڑسکتا ہے۔
پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں تمام تر فصلیں تین ہفتے پہلے تیار ہونے کے باعث سندھ میں گندم کی فصل زیادہ متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ سندھ میں گندم کی فصل تقریباً تیار ہوگئی ہے۔ تاہم اس صورتحال میں پنجاب میں گندم کی فصل متاثر ہوسکتی ہے۔ جس پر حکومت پنجاب بھرپور توجہ دے رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ پنجاب نے چشمہ بیراج کی نہروں میں پانی کی مقدار کم کرکے تونسہ بیراج کی نہروں میں پانی کا اخراج بڑھادیا ہے۔
محکمہ آبپاشی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت سندھ میں گدو بیراج کے مقام پر سات فیصد، سکھر بیراج کے مقام پر 56 فیصد اور کوٹری بیراج کے مقام پر پانی کے معاہدے کے مقابلے میں 46 فیصد، دریائے سندھ میں قلت کا سامنا ہے۔ مجموعی طور پر سندھ میں نہری پانی کی قلت کا تخمینہ 38 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس صورتحال میں کوٹری بیراج سے نیچے دریائے سندھ میں پانی کا اخراج مکمل طور پر بند کیا گیا ہے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ جب نہری پانی کی قلت کی صورتحال جب سنگین ہوجاتی ہے تو اس صورتحال میں عالمی قوانین کے تحت ترجیح فصلوں کو نہیں، پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنے کو دی جاتی ہے۔
اس صورتحال میں بھی کراچی میں پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوٹری بیراج سے نکلنے والی نہر کلری بگھار میں پانی کا اخراج ایک ہزار 860 کیوسک سے بڑھاکر دوہزار 8 سو کیوسک کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت سکھر بیراج سے نکلنے والی نہر دادو کنال میں پانی کی مقدار ساڑھے چار ہزار کیوسک ہونے چاہیے۔ لیکن اس کے مقابلے میں مذکورہ نہر میں 520 کیوسک پانی کا اخراج کیا جارہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ نہر میں پانی کی قلت تقریبا 88 فیصد ہے۔ یوں تصور کیا جائے کہ مذکورہ نہر میں جو پانی چھوڑا جارہا ہے وہ انسانوں اور مال مویشی کی پینے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہے۔
پنجاب اور سندھ کی جانب سے ایک دوسرے پر پانی چوری کرنے کے الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھی ایسی صورتحال ہوجاتی ہے تو یہ تنازع بڑھ جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس تنازع کی شدت اختیار کرنے کی ایک وجہ دریائے سندھ پر چھ نئے کینالوں کی تعمیر کا معاملہ بھی ہے جس پر سندھ کی تمام جماعتیں بھرپور احتجاج کر رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب قدرتی طور پر نہری پانی کی قلت بڑھے گی تو سندھ میں نئے کینالوں کی تعمیر کے منصوبوں کے خلاف احتجاج میں مزید شدت آسکتی ہے۔ جہاں تک پانی چوری کرنے کے الزامات کی بات ہے تو اس سلسلے میں حکومت سندھ نے پنجاب میں پنجند، تونسہ بیراج ، چشمہ بیراج ، کالا باغ کے مقام پر پانی کی مقدار کو مانیٹرنگ کرنے کے لئے تقریباً 55 ملازمین بھرتی کئے تھے، جن میں انجینئر ، گیج مین، کلرک، کلاسی ، چوکیدار و دیگر ملازمین شامل ہیں۔
ان ملازمین نے اپنی فیملی کے ساتھ پنجاب کے متعلقہ علاقوں میں رہائش اختیار کی ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 9 ماہ سے حکومت سندھ نے ان ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی ہے۔ جس سے ناصرف ان کی فیملیاں متاثر ہورہی ہیں بلکہ اس سے پانی کی صورت حال مانیٹرنگ کرنے کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ آبپاشی کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ان کی تنخواہوں کی ادائیگی حکومت سندھ نے بند نہیں کی بلکہ ان کو تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام آن لائن نہ ہونے کے باعث اے جی سندھ نے تنخواہوں کی ادائیگی روکی ہے۔ بہت جلد اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔
نہری پانی کی قلت اور چوری کے الزامات کے متعلق دو روز قبل ارسا کے ترجمان رانا خالد کا یہ بیان بھی منظر عام پر آیا کہ سندھ میں اس وقت پانی کی قلت کی جو بات کی جارہی ہے۔ اس کی ذمہ دار ارسا نہیں ہے کیونکہ ربیع کے لئے سندھ کے پانی کا جو تعین کیا گیا تھا اس میں سے سندھ نے فروری میں زیادہ پانی لیا۔
اس سلسلے میں نام شائع نہ کرنے کی شرط پر سندھ کے محکمہ آبپاشی کے ایک اعلیٰ افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ربیع کے دوران انہیں جو پانی ملنا تھا، انہوں نے اس سلسلے میں جو پلان بنایا تھا۔ اس کے تحت زیادہ پانی اکتوبر اور فروری کے مہینے میں لینا پلان میں شامل تھا۔ کیونکہ اکتوبر میں گندم کی بوائی ہوتی ہے۔ اور فروری میں گندم کی فصل کو آخری پانی دینا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ افسر نے یہ بھی بتایا کہ ارسا نے ربیع میں نہری پانی کی قلت کا جو تخمینہ لگایا تھا، اس میں سے سندھ نے پچیس فیصد پانی کی قلت کا تخمینہ تھا، جس کے لئے حکومت سندھ تیار تھی۔ لیکن وہ قلت 38 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ دریائوں میں پانی کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں خشک سالی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔